تنخواہوں کی عدم ادائیگی‘ پولیس احتجاج کرنے والے اساتذہ پر ٹوٹ پڑی‘ بدترین تشدد‘ متعدد گرفتار

1109
کراچی: پولیس احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھی چارج کررہی ہے ‘ چھوٹی تصویر میں ایک استاد زمین پر گرا ہوا ہے

کراچی (اسٹا ف رپورٹر) کراچی میں اساتذہ کا 5 سال سے تنخواہیں نہ ملنے کے خلاف پریس کلب کے باہر احتجاج، وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی پر پولیس اساتذہ پر ٹوٹ پڑی،واٹر کینن کا استعمال، بدترین لاٹھی چارج، 2 خواتین سمیت 12 اساتذہ زخمی، ایک کی ٹانگ ٹوٹ گئی، ایک کی آنکھ ضائع ہونے کا خدشہ، ٹیچرز ایسوسی ایشن سندھ کے صدر ظہیر بلوچ سمیت درجن سے زائد کو گرفتار کرلیا گیا۔ وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کی مداخلت پر حراست میں لیے گئے اساتذہ کو رہائی ملی۔ زخمی ہونے والے ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ظہیر بلوچ کا کہنا ہے کہ مجھ سمیت اساتذہ اُس وقت تک احتجاج ختم نہیں کریں گے جب تک ہمارے مطالبات منظور نہیں کرلیے جاتے۔ تنخواہوں کانوٹیفکیشن ملنے تک احتجاج جاری رہے گا اور آج( بدھ) دوپہر اساتذہ ایک بار پھر وزیر اعلیٰ ہاؤس پر دھرنا دینے کیلیے جائیں گے۔



انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ ہمارے مطالبات فوری حل کرے۔ تفصیلات کے مطابق 2012ء سے تنخواہیں نہ ملنے پر کراچی پریس کلب کے باہر تدریسی اور غیر تدریسی عملے نے احتجاج کیا۔ احتجاج میں خواتین اساتذہ بھی شامل تھیں۔ مظاہرین نے کہا کہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے 7500 تدریسی اور غیر تدریسی عملے کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، جس کے باعث گھرکے چولہے بند ہوگئے ہیں۔ لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ بعدازاں احتجاج کے شرکا نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی تو پولیس مظاہرین کیلیے رکاوٹ بن گئی۔ معاملہ جب بات چیت سے حل نہ ہوا تو پولیس نے بدترین لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ جس سے کئی ملازمین زخمی ہوگئے جبکہ درجن سے زائد کو حراست میں بھی لے لیا گیا۔ مظاہرین کے مطابق سیکرٹری ایجوکیشن نے 2 ہفتے میں مسئلہ حل کرنے کا کہا تھا لیکن تاحال کچھ نہیں ہوا۔



انہوں نے متعدد بار سیکرٹری سے ملنے کی کوشش کی لیکن وہ ملتے ہی نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں واقعے کی اطلاع ملنے پر وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ پریس کلب پہنچے اور مظاہرین سے مذاکرات کیے۔ ناصر شاہ نے اساتذہ پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم میں 2012ء کے دوران بھرتی ہونیوالے اساتذہ اور نان ٹیچنگ اسٹاف میں سے جس کی بھرتی قواعد کے مطابق ہو گی انہیں جلدبحال کر دیں گے مگر صرف اہل لوگوں کو ہی اسکروٹنی کے بعدبحالی کا آرڈر دیا جائے گا اور جو لوگ جعلی بھرتیوں میں ملوث ہیں ان کیخلاف کارروائی ہو گی۔ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ 2012ء میں محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے دوران جعلی بھرتیاں بھی کی گئی تھیں جس کی وجہ سے قواعد و ضوابط کے تحت بھرتی ہونیوالے اساتذہ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کی حق تلفی ہوئی اور انہیں اب تک پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔