اساتذہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ نئی نسل کے معمار ہیں اور ممکن ہے کہ لاٹھیاں برسانے والے پولیس اہلکاروں کے اپنے بچے بھی ان میں سے کسی کے شاگرد ہوں ۔ ہر مہذب معاشرے میں اساتذہ کا حد درجہ احترام کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایک استاد کی حیثیت کسی وڈیرے کے ہاری جیسی ہے اور ہمارے حکمران بھی مزاجاً وڈیرے ہیں ۔ اگر یہ اساتذہ وزیر اعلیٰ ہاؤس تک پہنچ کر اپنی شکایت درج کروا دیتے تو اس میں کیا حرج تھا ، وزیرا علیٰ تو ان کی فریاد سننے کے لیے کیا آتے ،ان کا کوئی نمایندہ ہی آ جاتا ۔ ان اساتذہ نے پریس کلب پر کئی گھنٹے تک انتظار کیاکہ شاید حکومت سندھ کا کوئی ذمے دار آکر ان کی بات سن لے لیکن شایدذمے داروں کی کمی ہے ۔ ان اساتذہ کو روکنے کے لیے پولیس نے آبی توپ اور آنسو گیس کا انتظام کر رکھا تھا گویا پہلے ہی سے اس کے عزائم خطرناک تھے ۔ چنانچہ لاٹھی چارج کے بعد واٹر کینن اور آنسو گیس بھی استعمال کی گئی ۔
کئی اساتذہ کو گرفتار بھی کیا گیا جو سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر شاہ کی ’’عنایت‘‘ سے رہا کر دیے گئے ۔ ناصر شاہ کا فرمانا ہے کہ2012ء میں اساتذہ کی غیر قانونی بھرتیاں ہوئیں ۔ چھان بین کے بعد اصل افراد کو بحال کریں گے اور جعلی بھرتی والوں کے خلاف کارروائی ہو گی ۔ شاید ناصر حسین شاہ کو یاد نہ رہا ہو کہ 2012ء میں بھی سندھ پر پیپلز پارٹی ہی کی حکومت تھی اور جعلی بھرتیوں میں پی پی کے وزراء ہی ملوث تھے ۔ لیکن اس حوالے سے پیر مظہر الحق کے خلاف تو تین دن پہلے ہی تحقیقات ردی کی ٹوکری کی نذر کر دی گئی ۔ عجیب بات ہے کہ وزیر اطلاعات جعلی طور پر بھرتی ہونے والوں کے خلاف تو کارروائی کا اعلان کر رہے ہیں مگر پیسے لے کر جعلی بھرتیاں کرنے والوں کو چھوٹ دی جا رہی ہے ۔ پہلے تو ان کو پکڑا جائے ۔ مگر وہ تو شاید اپنے ہی ہیں ۔ احتجاج کرنے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے بغیر تنخواہ کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ان کی شنوائی پہلے کیوں نہ ہوئی کہ وہ احتجاج پر اُتر آئے ۔ پولیس ان پر ٹوٹ پڑنے کے بجائے کسی معقول طریقے سے روک سکتی تھی جب کہ ان میں خواتین بھی شامل تھیں ۔