عدالت کے فیصلے پر عدالت کی نظر ثانی

332

Edarti LOHپاناما کے نام سے شروع ہونے والا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے کے بعد کھیل کا دوسرا حصہ شروع ہوا ہے۔ اس اثنا میں نواز شریف سے لے کر ان کی صاحبزادی مریم صفدر تک نے جی بھر کر عدالت عظمیٰ پر الزام تراشی کی ہے اور معزز ججوں کو سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔ مریم این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں مجمع جمع کرکے عوام کو اکسارہی ہیں کہ وہ انتقام لیں۔ مگر کس سے؟ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ ان کی طرف ہے جنہوں نے ان کے ابا جان کو نا اہل قرار دے کر ایوان وزیراعظم سے نکلوایا ہے۔ اس مبینہ سازش میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی شامل کرلیا گیا ہے اور ن لیگ کے رہنما، سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار بار بار سمجھارہے ہیں کہ ملک کے اہم ترین اداروں سے تصادم مناسب نہیں ہے۔



آصف علی زرداری کو بھی فوج کو للکارنے پر ملک سے باہر بھاگنا پڑا تھا۔ پاک فوج اور وزیراعظم نواز شریف کے تعلقات تو پہلے بھی کشیدہ رہے ہیں اور اسی کشیدگی نے جنرل پرویز مشرف کو اقتدار پر قبضہ کرنے پر اکسایا۔ اب پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف نواز شریف، ان کے بچوں اور داماد کی جانب سے دائر کردہ نظر ثانی کی درخواستوں کو عدالت عظمیٰ نے منظور کرلیا ہے اور جسٹس کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ میں سماعت کا آغاز ہوگیا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل کے مطابق نظر ثانی کی اپیل میں زیادہ زور تین رکنی بینچ کے فیصلے پر دیا گیا ہے۔ شریف خاندان کے مطابق ان کے خلاف فیصلہ تین رکنی بینچ نے دیا تھا چنانچہ اب 5 رکنی بینچ نظر ثانی کرے۔ اس سے پہلے پاناما مقدمہ بھی 5 رکنی بینچ ہی کے سامنے پیش ہوا تھا جس کے دو فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے۔ انہیں سسلی کے بدنام زمانہ ’’ڈان‘‘ سے تشبیہ دی گئی تھی۔ تاہم تین ججوں نے شریف خاندان کو مزید موقع دیتے ہوئے معاملہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سپرد کردیا تھا اس کی رپورٹ کی روشنی میں ان تین ججوں نے بھی نواز شریف کو نا اہل قرار دیا۔



عام تاثر یہ ہے کہ شریف خاندان قانونی جنگ لڑنے کے بجائے جذباتی جنگ لڑتا رہا اور جے آئی ٹی کے ارکان کو بھی بالواسطہ دھمکیاں دی گئیں۔ یہی غلطی ذوالفقار علی بھٹو سے سرزد ہوئی تھی۔ نواز شریف نے اپنے لیے بڑے نامور وکیلوں کا بندوبست کیا تھا مگر انہی میں سے ایک نے قطری خط پیش کرکے تماشا بنادیا۔ عدالت نے محترم وکیل سے استفسار بھی کیا تھا کہ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ کیا پیش کررہے ہیں اور وکیل صاحب کا کہناہے کہ انہوں نے اپنے موکل کے اصرار پر یہ خط عدالت میں جمع کرایا ہے۔ اس خط کی بنیاد پر کیس شروع ہی میں کمزور ہوگیا تھا۔ اب تو یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ اس خط کا بندوبست کس نے کیا تھا۔ بہر حال اب عدالت عظمیٰ میں نئے سرے سے کارروائی ہوگی۔ وکلا پھر دلائل کے انبار لگائیں گے۔ سماعتیں ملتوی ہوتی رہیں گی اور یہ کھیل ابھی اور کچھ عرصہ چلے گا۔ 17 ستمبر کو این اے 120 کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ بھی آجائے گا جسے ن لیگ اور تحریک انصاف نے قومی ریفرنڈم کا درجہ دے دیا ہے اور دونوں میں سے جو بھی ہارے وہ اب تک دیے گئے بیانات ضرور اٹھاکر دیکھ لے کہ ان کی روشنی میں اس کی کیا حیثیت ہے۔ جہاں تک شریف خاندان کا تعلق ہے تو اس کی مشکلا ابھی ختم نہیں ہوئیں بلکہ ناجائز اثاثوں کی تحقیقات نیب کے سپرد کردی گئی ہے جو اپنے ریفرنسز میں ایسی خامیاں ضرور چوڑ دیتا ہے کہ عدالت انہیں واپس کردے اور شریف خاندان کو مزید مہلت مل جائے۔



کچھ عرصے بعد نیب کے چیئرمین کی مدت ملازمت بھی ختم ہورہی ہے اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے احتجاج کیا ہے کہ نیب کے سربراہ کے لیے قانون کے مطابق ان سے مشورہ نہیں کیا گیا جب کہ یہ اصول طے ہے کہ نیب کے چیئرمین کا تقرر قائد حزب اختلاف اور اقتدار کے باہم مشورے سے ہوگا۔ اس تنازع کے طے ہونے تک کیا نیب کے ریفرنسز التوا میں پڑے رہیں گے؟ میاں نواز شریف تو اپنی اہلیہ کی عیادت کے لیے لندن جاکر بیٹھ رہے ہیں یہ غلط بھی نہیں کہ محترمہ کلثوم نواز کے لیے اس وقت اپنے شوہر کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ ملک کے معاملات اور پارٹی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں اور بیٹی کے حوالے کردیے ہیں لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا کلثوم نواز کو این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں امیدوار بنادیاگیا۔ یہ تونہیں سوچا جاسکتا کہ کلثوم نواز کی بیماری کا انکشاف ان کی نامزدگی کے بعد ہوا۔ اب اگر وہ منتخب بھی ہوگئیں تو کیا ا پنے حلقے کے لیے فعال ہوسکیں گی یا یہ کام بھی مریم کریں گی۔