عرفان محمود
ایک خوش نصیب صحابی جنہوں نے شہادت کے بعد وصیت کی اور سیدنا ابوبکرؓ نے اسے نافذ فرمایا۔
سیدنا ثابت بن قیس بن شماسؓ مشہور صحابی ہیں، جو قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے، اپنے زمانے کے مشہور خطیب تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتابت وحی کے فرائض بھی انجام دیے۔
عطا خراسانی فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ آیا تو مجھے ایسے شخص کی تلاش تھی جو سیدنا ثابتؓ کے حالات سنا سکے، لوگوں نے مجھے ان کی صاحبزادی کا پتا بتایا، میں نے جا کر ان سے سیدنا ثابتؓ کے حالات معلوم کیے، انہوں نے کہا میں نے اپنے والد سے یہ واقعہ سنا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآنِ کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے آدمی کو پسند نہیں کرتا جو اترانے والا، بہت فخر کرنے والا ہو۔
تو سیدنا ثابتؓ کو بڑی تشویش ہوئی، وہ گھر میں گوشہ نشین ہو کر بیٹھ گئے اور ان پر گریہ طاری ہوگیا۔ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی۔ آپؐ نے انہیں بلا کر ان سے وجہ دریافت کی، سیدنا ثابتؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے حسن وجمال سے بھی محبت ہے اور میں اپنی قوم کا سردار ہوں (اس لیے مجھے خوف ہے کہ کہیں مذکورہ آیت کے حکم میں شامل نہ ہو جاؤں)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو، بلکہ تم زندہ بھی خیر کے ساتھ ہوگے، تمہارا انتقال بھی خیر کے ساتھ ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ بعینہ یہی واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبیؐ کی آواز کے سامنے بلند نہ کرو اور ان سے بلند آواز سے گفتگو نہ کیا کرو۔
اس موقع پر بھی سیدنا ثابتؓ کو بڑی تشویش ہوئی، نبی اکرمؐ نے بلا کر وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میری آواز بلند ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں آپ کی آواز سے بلند آواز کے سبب میرے اعمال اکارت نہ ہو جائیں، اس پر بھی آپؐ نے فرمایا کہ بلاشبہ تم ان میں سے نہیں ہو، بلکہ تم قابلِ تعریف انداز میں زندہ رہو گے، تمہیں موت کے وقت شہادت کا مرتبہ حاصل ہوگا اور اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔
نبی اکرمؐ کے وصال کے بعد جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ اٹھا اور مسلمانوں کا ایک لشکر یمامہ کے مقام پر ان سے جنگ کے لیے روانہ ہوا تو سیدنا ثابت بن قیسؓ بھی اس میں شامل تھے، جنگ کی ابتدا میں دشمن کے حملے اس قدر شدید تھے کہ مسلمانوں کو تین مرتبہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا، سیدنا ثابتؓ اور ان کے ساتھی سیدنا سالمؓ نے جنگ کا نقشہ دیکھ کر کہا کہ: ’’ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو اس طرح نہیں لڑا کرتے تھے۔‘‘
یہ کہنے کے بعد ان دونوں نے زمین میں دو گڑھے کھودے اور ان میں ڈٹ کر کھڑے ہوگئے، تاکہ وہاں سے پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ جب تک دم میں دم باقی رہا، یہ دونوں حضرات انہی گڑھوں میں ڈٹے لڑتے رہے، یہاں تک کہ انہیں گڑھوں میں جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔
سیدنا ثابتؓ کی صاحبزادی نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ سیدنا ثابتؓ کی شہادت کے بعد ایک شخص نے انہیں خواب میں دیکھا کہ وہ ایسے کہہ رہے ہیں کہ جب مجھے کل قتل کر دیا گیا تو ایک شخص میری نعش کے قریب سے گزرا، میرے سینے پر ایک نفیس زرہ تھی، وہ اس نے اتار لی ہے، اس شخص کا مکان لشکر کے آخری سرے پر فلاں جگہ واقع ہے اور اس کے سامنے ایک لمبا تڑنگا گھوڑا بندھا ہوا ہے، اس شخص نے میری زرہ پر ایک ہانڈی اوندھی کر دی ہے اور اس ہانڈی پر ایک اونٹ کا کجا وہ ڈال دیا ہے۔ تم خالد بن ولیدؓ کے پاس جاؤ اوران سے کہوکہ وہ میری زرہ اس شخص سے واپس لے لیں، پھر جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ (یعنی سیدنا ابوبکرؓ) کے پاس پہنچو تو ان سے کہہ دینا کہ میرے ذمے اتنا اتنا قرض ہے اور میں نے اتنا اتنا مال اپنے پیچھے چھوڑا ہے اور میرے فلاں فلاں غلام آزاد ہیں۔ سیدنا ثابتؓ نے خواب ہی میں اس شخص سے یہ بھی فرمایا کہ تم میری ان باتوں کو خواب کی بات سمجھ کر ٹال نہ دینا، بلکہ ان پر عمل کرنا۔
وہ شخص سیدنا خالدؓ کے پاس پہنچا اور اپنا خواب سنایا، سیدنا خالدؓ نے آدمی بھیج کر زرہ کے واقعے کی تحقیق فرمائی تو زرہ اس پتے کے مطابق مل گئی۔ اس کے بعد وہ شخص سیدنا ابوبکرؓ کے پاس پہنچا او ر انہیں بھی یہ پورا قصہ سنایا تو آپؓ نے ان کی وصیت پر عمل کا اہتمام فرمایا۔ سیدنا ثابتؓ کے علاوہ کوئی شخص ہمیں ایسا معلوم نہیں ہے جس نے موت کے بعد وصیت کی ہو اور اس پر عمل ہوا ہو۔ (البدایہ والنہایہ)