مائنس آل

437

zc_Nasirوطن عزیز کی سیاست پارا صفت ہے ہمہ وقت مچلتی تھرکتی رہتی ہے کچھ عرصے سے مائنس ون کا بڑا چرچا ہے۔ عقل و دانش کے دعوے داروں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی سیاست کی طبعی عمر ختم ہوچکی ہے۔ جاتی عمر یا انہیں جاتی امرا تک محدود کردے گی، ایسے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کراچی کی سیاست سے الطاف کی بے دخلی کے بارے میں کون سوچ سکتا تھا مگر آج الطاف حسین کا نام لینا بھی جرم بن چکا ہے مگر حالات و واقعات کی روشنی میں یہ تجزیہ غیر حقیقی ہے کیوں کہ الطاف حسین کی سیاست سے بے دخلی سیاسی مخالفت یا سیاسی کمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ پاکستان مخالفت کا انجام ہے اگر الطاف حسین پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہ لگاتا تو وہ آج بھی مہاجر زادوں کے گلے کا ہار ہوتا، ان کے سر کا تاج ہوتا۔ جہاں تک میاں نواز شریف کی سیاست کا تعلق ہے تو وہ آج بھی رواں دواں ہے، اقامہ نے ان کی تیز رفتاری میں مزید اضافہ کردیا ہے، حلقہ 120 کا انتخابی نتیجہ ثابت کردے گا کہ ان کی رفتار میں بیس فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔



تحریک انصاف کو زیادہ سے زیادہ ووٹوں سے جیتنے کی توقع نہیں ہے اس کی کوشش ہے کہ کم از کم مارجن سے ہارا جائے اور یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مائنس ون کا فارمولا کسی زرخیز ذہن کی تخلیق ہے مگر خرابی یہ ہے کہ اس فارمولے میں حب الوطنی کے بجائے بغض معاویہ کار فرما ہے۔ وطن عزیز کی اصل اور حقیقی سیاسی ضرورت مائنس ون نہیں مائنس آل ہے۔ سیاسی بحران اور سیاسی قیادت کا فقدان کی اصل وجہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی آمرانہ سوچ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے تمام قائدین اور بانی پیر تسمہ پا بن کر اپنی اپنی جماعتوں کے کاندھوں پر سوار ہیں سو، تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین پر قیادت کے دروازے بند کردیے جائیں۔ عائشہ گلالئی درست کہتی ہے کہ سیاسی جماعت کسی کی جاگیر نہیں ہوتی وہ کبھی تحریک انصاف نہیں چھوڑے گی۔ جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا موقع اسی صورت میں مل سکتا ہے جب نامزد قائد کے بجائے منتخب قیادت کو موقع دیا جائے۔ نصرت بھٹو کہا کرتی تھیں کہ بھٹوز حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں، شریف فیملی نے اس فکر کو تقویت دی گویا ہماری جمہوریت بادشاہت کی جدید صورت ہے۔



کسی بزرگ نے جمہوریت کی مخالفت میں بڑی خوبصورت اور جاندار مثال دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ محبت اور جمہوریت خودداری کی دشمن ہوتی ہے محبت سگ لیلیٰ کی غلامی پر مجبور کرتی ہے اور جمہوریت انگلی پکڑ کر چلنا سکھانے والوں کو سرنگوں ہونے کا درس دیتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین فوج کی نگرانی میں الیکشن کرانا پسند کرتے ہیں، سیاسی جماعتوں کے الیکشن بھی فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں، ملک کی قیادت کے لیے پانچ سال مقرر ہیں، سیاسی جماعت کی قیادت کی مدت بھی پانچ سال مقرر کی جائے۔ جو لوگ مریم نواز اور بے نظیر بھٹو کا سیاسی تقابل کررہے ہیں وہ ایک اہم بات بھول رہے ہیں اور وہ اہم بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی تقریر سن کر اکثر موقعوں پر ہنسی آتی تھی۔ مریم نواز کی تقریر متاثر کرتی ہے، مریم نواز کی تقریرمیں بے ساختگی اور برجستگی ہوتی ہے جو بے نظیر بھٹو کی تقریر میں ناپید تھی۔