پروفیسر عنایت علی خان
اخباری اطلاع کے مطابق اقوام متحدہ کی مشیر برائے امور خواتین محترمہ ایلزبتھ برو ڈرک نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا ہے۔ اقوام متحدہ کا انگریزی نام United Nations Organisation (UNO) ہے جس کے بارے میں ہمارے ملک کی وزارت خارجہ کے ایک باوقار سفارت کار اور معتبر مزاح گو شاعر جناب سید محمد جعفری نے کہا تھا
یو این او میں ’’یُو‘‘ ہے امریکا کا باقی نو ہی نو
مصرع تو برائے بیت آگیا ورنہ محترمہ ایلزبتھ کی پاکستان آمد پر تو غالب کا یہ شعر استقبال کے طور پر پڑھنا چاہیے۔
حضرتِ ناصح جو آئیں دیدہ و دل فرش راہ
کوئی ہم کو یہ تو سمجھادو کہ سمجھائیں گے کیا
یہاں بھی دوسرا مصرع برا ئے بیت آگیا ورنہ کسے نہیں معلوم کہ ہم ازلی ناسمجھ لوگوں کو حالات زمانہ اور معاملات کی اونچ نیچ سمجھانا مغربی اقوام کی انسان دوستی کا اہم تقاضا ہے جسے وہ پہلی بار برصغیر آمد سے لے کر آج تک نبھارہی ہیں اور اس وقت تک سمجھاتی رہیں گی جب تک ہم اُن کے ڈھب پر نہ آجائیں۔ قرآن پاک میں بھی تو سورہ بقرہ میں یہی بات ارشاد ہوئی ہے کہ
’’یہود اور نصاریٰ تم (مسلمانوں) سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے جب تک تم اُن کے طور طریقے نہ اپنالو‘‘۔ جب ان کا یہ مشن پورا ہوگا تب گوری نسل کا وہ بوجھ WHITE MAN BURDON اترے گا جو اُن کی کمر کو دہرا کیے دے رہا ہے۔ اس مشن کی ایک اہم شق یہ ہے کہ وہ یو این او کے ادارے کے ذریعے عالم انسانی اور بطور خاص مسلمان جیسی تہذیب و تمدن نا آشنا قوم کو مساواتِ مرد وزن کی ناگزیر ضرورت کا شعور و ادراک عطا فرمائیں۔
مذکورہ محترمہ کی اس توجہ فرمائی کا شکریہ ادا کرنے اور دیدہ و دل فرش راہ کرنے کی وزیر مملکت اور امریکی امداد سے قائم ادارے بے نظیر انکم سپورٹ (بی آئی ایس پی) کی صدر محترمہ ماروی میمن، محترمہ کی قدم بوسی کے لیے اسلام آباد تشریف لائیں۔ انہیں جو پٹی پڑھائی جانی تھی اس کا ایجنڈا تھا،
-1خواتین کو بااختیار بنانا،-2 صنفی مساوات کا تیقُّن، -3گھریلو اور خاندانی تشدد کا سدباب۔
ہماری خوش گمانی ہے کہ محترمہ ماروی میمن صاحبہ نے بصد معذرت یو این او کی سابقہ ہدایات کی تعمیل کی پیش رفت کے ثبوت کے طور پر محترمہ عاصمہ جہانگیر سے لے کر عائشہ گلالئی، ان کی بہن ماریہ طور پکئی، عائشہ احد اور ان سے لے کر ملیحہ لودھی اور شیریں مزاری تک کے نام نامی گنوا کر سرخروئی حاصل کرنی چاہی ہوگی اور اگر ہماری خوش گمانی درست ہے تو یقیناًناصحہ مُشفقہ نے روایتی انداز سے اس پیش رفت کو سراہا بھی ہوگا اور اس کی طوعاً و کرہاً تعریف بھی کی ہوگی لیکن عسکری دائرے کی طرح اس دائرے میں بھی ’’ڈومور‘‘ کی تلقین پر اس ’’پٹی‘‘ کا اختتام ہوا ہوگا۔
جس کا سلیس ترجمہ ہمارے ایک دوست ڈوب مرو کے الفاظ سے کرتے ہیں۔ جس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ہم نے دانش مغرب یا صہیونی عزائم کے بموجب ایوب خان کے دور میں عائلی قوانین پاس کیے جن کے تحت 18 سال سے کم عمر دوشیزہ کا نکاح قابل سزا جرم ٹھیرا کہ اس عمل کے بقول کسے تمام اسٹاک ہولڈرز مع نکاح خواں کے داخل زنداں ہوتے ہیں اور پہلی بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر دوسرا نکاح بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ملک کے علما اور فقہا نے شریعت کے اصولوں اور نبی اکرمؐ کے طرزِ عمل سے لاکھ استدلال کیا کہ آپؐ کا نکاح ام المومنین عائشہ صدیقہ سے کس عمر میں ہوا تھا۔ دوسری شق کے بارے میں کہا گیا کہ اگر پہلی بیوی کے انکار کے نتیجے میں دوسرے نکاح پر مصر شخص پہلی کو طلاق دے دیتا ہے تو اس کی کفالت کیا عائلی قوانین کے مرتبین کریں گے؟ لیکن علما کا احتجاج بے نتیجہ رہا کہ جہاں بندوق چلتی ہے وہاں جادو نہیں چلتا۔ رہی دوسری شق خواتین کے اختیار کی بات تو بقول حالی
تم گھر کی ہو شہزادیاں غمگیں دلوں کی شادیاں
وہ اپنے فطری دائرہ عمل میں جس طرح شہزادی بلکہ ملکہ بن کر رہتی ہیں اس پر تو مساوات کے جوئے تلے دبی مغربی عورت رشک کرتی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں مردوں سے زیادہ خواتین کا قبول اسلام اس امر کی تصدیق کے لیے کافی ہے جسے اِن کے مقابلے میں سہہ گنا کام کرنا پڑتا ہے یعنی کما کر بھی وہی لائے، گھر بھی وہی سنبھالے اور کلبوں اور رقص گاہوں میں مردوں کی ہوسناک نظروں کا بھی سامنا کرے اور اگر اُس کے پارٹنر (ضروری نہیں کہ وہ شوہر ہی ہو) کی پسندیدہ فٹ بال ٹیم فائنل میں ہار جائے تو اس کی ہار کا خمیازہ بھی زدوکوب کی شکل میں بھگتے۔ معروف یورپین انٹرویو نگار خاتون اور یانہ فلاسی کے بیسٹ سیلر ناول Letter to the child never born کا حوالہ بھی دیا جاسکتا تھا جس میں معاشرتی دباؤ کے تحت ایک خاتون نے پیر بھاری ہونے کی خوش خبری کے ساتھ اپنے وجود کے ایک خوابدیدہ حصے کے نام مامتا بھرے خطوط لکھے تھے اور پھر معاشرے کے ناقابل تحمل دباؤ کے تحت مامتا کا گلا گھونٹ کر اسقاط کرادیا تھا۔ اس ناول کا تصور تو حکیم الامت نے تقریباً ایک صدی قبل مغرب کے سامنے پیش کردیا تھا کہ کیا یہی ہے معاشرت کا کمال۔ مرد بیکار وزن تہی آغوش
پھر آزادی نسواں کے شاہ کار (نامعلوم باپ کے بچوں) کا ذکر بھی کیا جاسکتا تھا جنہیں نو نہالان مملکت اور فلاور چلڈرن کا نام دے کر ’’بچہ گھروں‘‘ میں پروان چڑھایا جاتا رہا اور جب وہ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت و نگرانی سے محروم ہو کر لاقانونیت اور غنڈہ گردی کا عنوان بن گئے اور پھر ان پھولوں کو خار بنتے دیکھ کر (جس کا سبب آغوش مادرسے محرومی تھا) آئین میں موجود جرم اسقاط کو مُباح قرار دیا گیا بلکہ اس عمل کی ہمت افزائی کی جارہی ہے۔ بقول کے Nip in the bud۔ یعنی وہ شاخ ہی نہ رہے جس پہ آشیانہ ہے۔ مغربی ممالک کے ان ترقی یافتہ معاملات کے پس منظر میں محترمہ ماروی میمن اگر آئندہ ایسی ملاقات ہو تو اس وقت کے لیے مرحوم علامہ اقبال کا یہ شعر یاد کرلیں۔
تجھے کیا فکر ہے اے گل دل صد چاکِ بلبل کی
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رُفو کرلے