شریف خاندان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اپنے بیٹے کی کمپنی میں کام کرتے ہوئے طے کردہ تنخواہ وصول نہیں کی اور یہ نا اہلی کا جواز نہیں بنتا۔ اب ہوسکتا ہے کہ اس چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں یہ عقدہ بھی وا ہوجائے۔ شاید اسی لیے عدالت عظمیٰ نے انتباہ کیا ہے۔ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے یہی نکتہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصول کرنے یا ظاہر نہ کرنے پر I 62 ایف کیسے لگ سکتا ہے۔ اس پر زیادہ سے زیادہ نواز شریف کا الیکشن منسوخ کردیا ہوتا۔جسٹس اعجاز افضل کا مشورہ تھا کہ آپ کے پاس موقع ہوگا کہ احتساب عدالت میں گواہوں اور جے آئی ٹی ارکان پر خوب جرح کرلیں۔ جسٹس آصف سعید نے بڑا دلچسپ مشورہ دیا کہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں، 3 ججوں ہی کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں، ہم دو جج تین ججوں کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بہر حال معاملات ابھی اور آگے بڑھیں گے لیکن شریف خاندان اور فیصلے سے متاثر دیگر افراد عدالت عظمیٰ کے خلاف جو مہم چلارہے ہیں اس کا نقصان انہی کو ہوگا، کیا یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی؟