کھالوں کی قیمتوں میں کمی

660

Edarti LOHامسال عیدالاضحی پر گزشتہ سال کی بنسبت5 فی صد زائد قربانیاں کی گئی لیکن جانوروں کی کھالوں کی قیمت انتہائی کم رہی جس کی وجہ سے فلاحی ادارے اپنے مالیاتی اہداف پورے نہ کرسکے۔ کراچی میں جب سے کھالوں پر چھینا جھپٹی ختم ہوئی ہے اس کے بعد سے کھالوں کی قیمتوں میں گراوٹ آنا شروع ہوئی ہے جس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ یہ ٹینری مافیا کی ملی بھگت ہے۔ حالانکہ یہ بحران عالمی سطح کا ہے جس سے امریکا، روس، چین اور یورپ کے اکثر ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ گائیں ارجنٹائن میں پائی جاتی ہیں اور ایک ماہ قبل تک وہاں کھال کی برآمد پر پابندی تھی لیکن اب یہ پابندی اٹھالی گئی جس سے عالمی مارکیٹ میں چمڑے کی قیمت گرگئی ہے۔ پاکستان میں ٹینری سیکٹر کے پاس پچھلی عید کی کھالیں اب تک گوداموں میں موجود ہیں تاہم سرمایہ کاروں نے بہتری کی امید پر مزید کھالیں اسٹاک کرلی ہیں۔



چنانچہ گائے کی کھال کی قیمت 1600 سے 1800، بکرے کی 200، دنبے کی 100 اور اونٹ کی 800 تک رہی۔ ان سب کے مقابلے میں گدھے کی کھال کی قیمت سب سے زیادہ ہے جو عالمی مارکیٹ میں 25 ہزار روپے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے لاہورمیں گدھے کی 4,700 کھالیں پکڑی گئیں جو چین اسمگل کی جارہی تھیں جہاں انہیں دواؤں اور کاسمیٹکس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کسٹمز کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔ اس پہلو پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ اتنے گدھوں کا گوشت کہا گیا۔ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ چین میں گدھے کم ہوگئے ہیں یا پاکستانی گدھوں میں کوئی خاص چیز دریافت ہوئی ہے۔ لاہور میں مبینہ طور پر گدھے کا گوشت کھلانے کی خبریں آچکی ہیں۔ چینیوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہر چیز کھاجاتے ہیں، کھال کے ساتھ ساتھ گوشت بھی چین بھیج دیا جائے تو دوا کے ساتھ ان کی غذا کا بندوبست بھی ہوجائے گا اور پاکستان کے لوگ بھی حرام کھانے سے بچ جائیں گے۔