عسکری اور سیاسی قیادت سے چند سوالات

592

ملک الطاف حسین
22 اگست 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’نئی افغان پالیسی‘‘ کا اعلان کرتے ہوئے جس طرح سے پاکستان کو دھمکیاں دینے اور بے بنیاد الزامات لگانے کی بوچھاڑ کی ہے وہ 50 سالہ امریکی دوستی کا ایک بدترین اور سیاہ باب ہے جب کہ دوسرے روز 23 اگست کو امریکی وزیر خارجہ ایکس ٹلرسن نے پاکستان کے اندر حملے کرنے سمیت مزید جو کچھ کہا اُس سے ’’امریکی دوستی‘‘ کے نقاب کے ساتھ ساتھ لباس بھی سرک کر پاؤں پر جا گرا ہے۔ جس کے بعد امریکی دوستی کا نظارہ ہر زاویے سے کیا جاسکتا ہے تاہم وہ لوگ جو امریکی دوستی کی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہیں ان کے لیے امریکی صدر کی دھمکی یا احمقانہ نئی افغان پالیسی کوئی نئی بات نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ بھارت امریکا گٹھ جوڑ سمیت صدر ٹرمپ وزیر خارجہ ٹلرسن اور افغانستان میں امریکی جنرل نکلسن کی دھمکیوں اور ناپاک ارادوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا، بروقت جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہوں گے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی کمزوریوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کا بھی جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا ہوگا کہ جن کی وجہ سے آج ’’پاکستان‘‘ انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ علاوہ ازیں ایسے فیصلے اور اقدامات اُٹھانا ہوں گے کہ جن کے بعد جنرل نیازی اور جنرل مشرف کے ذلت آمیز اور شرمناک فیصلوں کو دہرائے جانے کا خطرہ باقی نہ رہے۔



قارئین آئیے اس حوالے سے پاکستان کے وسیع تر مفاد اور قومی سلامتی کے لازمی تقاضوں کی خاطر عسکری اور سیاسی قیادت سے چند سوالات کرتے ہیں کیوں کہ ان سوالات کے جوابات پر ہی پاک افغان اور پاک امریکا تعلقات کے مستقبل کا انحصار اور خطے کا امن وابستہ ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ جنرل مشرف نے افغانستان پر امریکی حملے کے لیے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے سمیت لاجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ فراہم کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا کیا 16 برس کا تجزیہ اُس فیصلے کو درست ثابت کررہا ہے؟ جنرل مشرف نے یہ جو کہا تھا کہ افغانستان پر ناٹو حملے میں امریکا کا اتحادی بننے سے پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ، مسئلہ کشمیر کا حل اور پاکستانی معیشت کے بہتر ہونے کے امکانات ہیں تو کیا یہ تینوں اہداف حاصل کرلیے گئے یا یہ کہ یہ تینوں امکانات مزید خدشات میں بدل گئے؟ پاکستان کی افغان پالیسی اگر ناکام ہوگئی، پاکستانی معیشت کو اپنے وسائل سے 123 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان اور 70 ہزار شہری شہید کردیے گئے تو اس ناقابل تلافی نقصان کا ذمے دار کون ہے، کیا یہ حقیقت نہیں کہ جنہوں نے امریکی دباؤ اور ایما پر مذکورہ ’’افغان پالیسی‘‘ ترتیب دی تھی اُن سے پوچھ گچھ کی جائے؟ افغانستان ایک برادر اسلامی اور پڑوسی ملک تھا جب کہ اس کے غریب عوام 1979ء سے 1990ء تک سوویت یونین کی افواج کے خلاف پہلے ہی بے پناہ قربانیاں دے چکے تھے اور ان کے ’’جہاد افغانستان‘‘ نے پاکستان سمیت دیگر کئی مغربی ممالک کو سُرخ انقلاب کے خطرے سے محفوظ رکھا مگر یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ اِن محسنوں کو دوبارہ ناٹو کے 40 ممالک کی افواج کے حملے کی زد میں دے دیا گیا، اس طرح کا فیصلہ انصاف، انسانیت یا بہادری کے زمرے میں آتا ہے؟ سوال یہ بھی اہم ہے کہ 9/11 کو نیویارک میں جو سانحہ پیش آیا اُس کی منصوبہ بندی قطعاً افغانستان میں نہیں کی گئی اور نہ ہی حملہ آوروں میں کوئی افغان باشندہ یا اُسامہ کا کوئی ساتھی شامل تھا۔



آخر پھر کس بنیاد پر امریکا نے افغانستان پر حملہ اور جنرل مشرف نے اس حملے میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ کیا؟ اکتوبر 2001ء میں امریکی و ناٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کردیا، 2004ء میں امریکی ڈرون جہازوں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملے شروع کردیے جس کے بعد پاکستانی فوج بھی حرکت میں آگئی اور پاکستان کے اندر مختلف ناموں سے درجنوں ملٹری آپریشن شروع کردیے گئے جن میں سے کئی ایک ہنوز جاری ہیں تو کیا اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے سے پہلے پاکستان میں ’’ملٹری آپریشنوں‘‘ کی ضرورت پیش کیوں نہیں آئی؟ صدر ٹرمپ نے نئی افغان پالیسی کے تحت افغانستان میں امریکی فوجیوں کے اضافے کا جو فیصلہ کیا ہے اُس فیصلے کے نتیجے میں تازہ دم امریکی فوجیوں کو جو گروپس افغانستان میں اُتر رہے ہیں وہ کون سا راستہ استعمال کررہے ہیں اگر امریکا کے مزید فوجی اور ان کا اسلحہ پاکستان سے گزر کر جارہا ہے تو پھر یہ دنیا کا یقیناًانوکھا واقعہ ہوگا کہ حکومت پاکستان اُس فوج کو اپنی سرزمین سے راہ داری دے رہی ہے کہ جو افغانستان میں اُترنے اور جمع ہونے کے بعد پاکستان پر حملے کا ارادہ رکھتی ہے، کیا خطے کے امن و استحکام کے لیے یہ ضروری نہیں کہ افغانستان میں موجود تمام غیر ملکی فوجوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کردیا جائے جب کہ امریکی صدر اور جرنیلوں کی دھمکیوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ’’ناٹو سپلائی‘‘ بند کردی جائے؟



آئندہ غلط فیصلوں سے بچنے کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ جنرل مشرف اور اُن کے اُن ساتھی کورکمانڈرز پر مقدمہ چلایا جائے کہ جنہوں نے 2001ء میں امریکی و ناٹو افواج کو افغانستان پر حملہ کرنے میں مدد دینے کے لیے قوم کی اجازت کے بغیر پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے دینے کا فیصلہ کیا تھا؟ اگر ترکی میں بغاوت کے دوران امریکا کے لیے کام کرنے والے ہزاروں فوجیوں پر مقدمہ چل سکتا ہے تو پاکستان میں امریکا کے لیے استعمال ہونے والے جنرل مشرف کا کورٹ مارشل کیوں نہیں ہوسکتا؟
اُمید ہے کہ موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت کہ جس کا ماضی کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں تا ہم ماضی کا تسلسل ضرور ہے، مندرجہ بالا اٹھائے گئے نکات اور خدشات پر قوم کے اطمینان کے لیے فوری فیصلے اور ضروری اقدامات اٹھائے گی کہ جن کا تعلق خطے کے امن اور وسیع تر قومی مفاد سے ہے۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین