نواز شریف کی نا اہلی کا حتمی فیصلہ

451

Edarti LOHعدالت عظمیٰ کے 5معزز ججوں پر مشتمل بینچ نے گزشتہ جمعہ کو پاناما مقدمے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ امکان یہی تھا کیوں کہ عموماً نظر ثانی کی اپیل مسترد ہو جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ اپنے ہی متفقہ فیصلے کو کالعدم کیسے کردیتی۔ چنانچہ نوازشریف کی نا اہلی کا حتمی فیصلہ توہوگیا۔ شریف خاندان اس فیصلے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور عوامی عدالت کی رٹ لگا رکھی ہے۔ لیکن آئینی اور قانونی فیصلے سڑکوں پر نہیں ہوتے اور نہ ہی ہجوم جمع کر کے عدالتوں پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو یاد ہوگا کہ جب پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالت عظمیٰ نے ایک منٹ میں نا اہل قرار دے دیا تھا تو نواز شریف سمیت پوری مسلم لیگ ن نے شادیانے بجائے تھے۔ خود میاں نواز شریف بھی کالا کوٹ پہن کر بطور وکیل پہنچ گئے تھے۔ اس وقت تو مسلم لیگ ن نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور فیصلے کی تائید کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے بھی اس فیصلے پر ایسا ہنگامہ نہیں کیا تھا حالاں کہ اس وقت آصف علی زرداری صدر تھے۔ اب بھی ن لیگ نے میں نہ مانوں کی ضد پکڑی ہوئی ہے اور اس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انصاف نہیں ملا۔ ان رہنماؤں نے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کو مولوی تمیز الدین مقدمے کے فیصلے سے تشبیہ دے دی ہے۔



وہ فیصلہ ایک آمر کے دباؤ کا نتیجہ تھا لیکن کیا نواز شریف کے حواری یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس وقت بھی کسی آمر کی حکومت ہے جس کے دباؤ پر یہ فیصلہ آیا ؟ ذہنوں میں ایسی ہی کھچڑی پک رہی ہے چنانچہ یہ کہا جا چکا ہے کہ فیصلے کہیں اور لکھے جاتے ہیں اور جج حضرات پڑھ کر سنا دیتے ہیں۔ نواز شریف بھی عدالت اور طاقت کے گٹھ جوڑ کی بات کرچکے ہیں۔ لیکن کھل کر کیوں نہیں کہتے کہ فیصلے کہیں اور کہاں لکھے جارہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ اشارے کس کی طرف ہیں ۔ شاید اسی لیے ن لیگ کے سب سے سینئر رہنما بار بار سمجھا رہے ہیں کہ عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی نہ کی جائے۔ لیکن ن لیگ کے عزائم خطرناک ہیں اور عوام کو عدلیہ کے خلاف اکسایا جارہا ہے۔ اگر آج این اے 120 پر ضمنی انتخاب کا نتیجہ اسپتال میں موذی مرضی سے لڑتی ہوئی کلثوم نواز کے حق میں آگیا تو اسے بھی عدلیہ کے خلاف اور نا اہل قرار دیے گئے نوازشریف کے حق میں عوام کا فیصلہ قرار دیا جائے گا اور بقول مریم نواز یہ عوام کا انتقام ہوگا۔



نظرثانی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا تبصرہ تھا کہ آئین اور بنیادی حقوق کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، ٹرائل شفاف ہوگا۔ سماعت کے دوران یہ نشاندہی بھی کی گئی کہ جعلی دستاویزات کا الزام لگایا گیا تھا لیکن عدالت نے اس بنیاد پر کوئی آبزرویشن نہیں دی۔ جسٹس عظمت سعید نے یقین دہانی کرائی کہ ٹرائل کورٹ میں ملزمان کا فیئر ٹرائل ہوگا اور ہماری کوئی آبزرویشن رکاوٹ نہیں بنے گی۔ ابھی نواز شریف اور دیگر ملزمان کے سروں پرتلوار لٹک رہی ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز کا مقدمہ چلا تو اور بہت کچھ سامنے آئے گا۔ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق شکورہ کررہے ہیں کہ ’’ ایک وزیر اعظم کو انصاف نہیں ملا تو عام آدمی کو کیسے ملے گا ‘‘ ؟اور طلال چودھری کہتے ہیں کہ نظر ثانی ہوئی ہی نہیں ۔ اب تو یہی راستہ رہ گیا کہ میاں نواز شریف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریں، اپنی عدالتوں پر تو انہیں اعتماد نہیں رہا۔ جہاں تک سعد رفیق کے اعتراض کا تعلق ہے تو عام آدمی ان کے دور حکومت میں بھی انصاف سے محروم ہی رہا ہے لیکن جب وزیر اعظم پر ہاتھ پڑا تو انصاف کی دوہائی دی جانے لگی۔ عوام کے ووٹوں سے کسی کے منتخب ہونے کا یہ مطلب کہاں ہے کہ اسے لوٹ مار اور بیرون ملک پیسے بھیج کر جائداد اور کارخانے بنانے کی چھوٹ دے دی جائے اور پکڑ ہو تو کہا جائے کہ یہ انصاف نہیں ہے۔



میاں نواز شریف تو غیر معینہ مدت کے لیے لندن جا بیٹھے ہیں اور اب انہوں نے تمام انڈے ایک ٹوکری میں جمع کرلیے ہیں۔ وزیر اعظم عباسی سمیت اپنے ساتھیوں سے مشورہ ہو رہا ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ گزشتہ جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر محسن لغاری نے معنی خیز بات کی ہے کہ ہم اپنا کام نہیں کریں گے تو خلا کہیں اور سے پر ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھاکہ اداروں نے اختیارات سے تجاوز کیا تو جمہوریت مستحکم نہیں ہوگی، طاقت کے مراکز کو حدود کا لحاظ رکھناچاہیے، جمہویرت کو جھٹکے لگ رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے فرمایا کہ جمہوریت کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور بیٹھا ہے جب کہ کنٹرول بیک سیٹ والوں کے پاس ہے، حادثہ ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت ہے کیا اور اسے مستحکم کرنا کس کی ذمے داری ہے۔ جمہوریت کو تو کئی بار حادثات پیش آچکے ہیں جس کی ذمے داری سیاست دانوں پر بھی عاید ہوتی ہے۔ اور جمہوریت کا یہ مطلب نہیں کہ انتخابات کے راستے سے جو اقتدار میں آجائے وہ جو چاہے کرتا رہے، اس سے کوئی نہ پوچھے ورنہ جمہوریت خطرے میں ہے۔