پختونخوا میں نیا تعلیمی ایکٹ طلبہ کا مستقبل تاریک کردے گا‘ مشتاق خان

322
مرکزی حکومت جغرافیہ اور نظریے کے تحفظ میں ناکام ہوگئی، مشتاق خان
مرکزی حکومت جغرافیہ اور نظریے کے تحفظ میں ناکام ہوگئی، مشتاق خان

پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا مشتاق احمد خان نے خیبر پختونخوا حکومت کے نئے تعلیمی ایکٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے جماعت اسلامی کو اعتماد میں لیے بغیر تعلیمی ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس ایکٹ کے نفاذ سے سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری کی راہ ہموار ہوگی۔ محکمہ تعلیم میں ہونے والی مجوزہ تبدیلیوں کا علم اخبارات کے ذریعے ہوا۔ حکومت اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرے۔ نئے تعلیمی ایکٹ کا مطلب تعلیمی اداروں کی تباہی اور طلبہ کا مستقبل تاریک کرنا ہوگا۔ اساتذہ تنظیمیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، نئے تعلیمی ایکٹ کے بارے میں ان کو اعتماد میں نہ لینے سے فائدے کے بجائے نقصان ہوگا۔ محکمہ تعلیم اہم اور حساس ادارہ ہے، صوبائی حکومت اسے تجربات کی بھینٹ چڑھانے سے گریز کرے۔ محکمہ تعلیم کو آپریشن تھیٹر نہ بنایا جائے۔ جماعت اسلامی کو اعتماد میں لیے بغیر اور ہماری تشویش دور کیے بغیر بل اسمبلی میں پیش ہوا تو اس کی مخالفت کریں گے۔ محکمہ تعلیم ہر قسم کی قانون سازی سے قبل اصلاحات اور نئے اقدامات کے لیے فریقین سے مشاورت اور گفت وشنیدضروری ہے ۔ صوبے بھر کے اساتذہ کے 19ستمبر کو صوبائی اسمبلی کے سامنے ہونے والے احتجاجی دھرنے کی حمایت کرتے ہیں۔



تنظیم اساتذہ اور اساتذہ کے مشترکہ محاذ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حکومت ایکٹ پر وسیع مشاورت کا اہتمام کرے اور اساتذہ تنظیموں، سیاسی قائدین، ماہرین تعلیم اور والدین کی آرا لینے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی حکومت کی جانب سے مجوزہ تعلیمی ایکٹ پر اپنے ردعمل کے طور پر المرکز الاسلامی پشاور سے جاری کیے گئے بیان میں کیا۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ صوبے میں پہلے تعلیمی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، غریب والدین اب بھی بڑی تعداد میں اپنے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرانے کی سکت نہیں رکھتے، ایسے میں مجوزہ تعلیمی ایکٹ سے مزید استحصال ہوگا۔ نیا تعلیمی ایکٹ غریب کے بچوں سے تعلیم کا حق چھیننے کے مترداف ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے نہ اپنی اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لیا نہ ہی صوبے کی اسٹیک ہولڈر اساتذہ تنظیموں کو نئی پالیسی کے حوالے سے کچھ بتایا۔ حکومت کے اس قسم کے اقدامات سے خرابی اور بگاڑ پیدا ہوگا۔ تعلیمی اداروں کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے نام پر ریٹائرڈ ججوں، بیوروکریٹس یا سیاستدانوں کے حوالے کرنا اساتذہ کا استحصال ہے۔ صوبائی حکومت مسائل کو بگاڑنے کے بجائے اسے حل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ اتنی اہم اور بنیادی تبدیلیوں کے لیے حکومت اور اتحادیوں کے درمیان طویل مشاورت ہونی چاہیے تھی۔ ہم مجوزہ نئے تعلیمی ایکٹ پر اعتماد میں لیے بغیر کسی صورت اس کی حمایت نہیں کریں گے۔