محسن کراچی ڈاکٹر پرویز محمود شہید

435

احمداعوان
کار شاہراہ فیصل پرآہستہ آہستہ منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ کار میں سوار تینوں دوستوں کا معمول تھا کہ وہ ہر دوسری رات جمع ہوتے۔ بلاول ہاؤس کے سامنے واقع چائے کی دکان سے چائے پیتے اور پھر گاڑی کو 40 کی اسپیڈ پر ڈال کر اس کارخ دو دریا جانے والی سڑک کی طرف موڑ دیتے۔ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے عابد بھائی کم ہی بولتے تھے ۔عابد بھائی کا عرصے سے معمول تھا کہ وہ ڈاکٹر پرویز کے ساتھ رہتے، وہ ہر روز ثواب سمجھ کر ڈاکٹر پرویز محمود کو ان کے گھر سے لیتے پھر تیسرے دوست کو شاہراہ فیصل سے بٹھاتے یوں مسافروں کی گنتی پوری ہوجاتی۔
ڈاکٹر صاحب اکثر کہا کرتے کہ آدمی دوستوں کی خاموشی کو بھی انجوائے کرتا ہے۔ کار حسب معمول سفر طے کر رہی تھی۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے نوجوان نے ڈاکٹرصاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خیریت ہے بھائی؟ آج کچھ اداس لگ رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے گاڑی میں چلنے والے ٹیپ کی آواز بند کی اور کہنے لگے۔ آپ نے اشفاق احمد کا ڈراما، فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی، دیکھا ہے؟ نوجوان نے کہا جی بھائی بہت پہلے دیکھا تھا کچھ کچھ یاد ہے۔ انہوں نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیااور پیچھے بیٹھے نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے بات شروع کی



وہ کہنے لگے آج میں گھر میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا کہ نیچے کسی نے گھنٹی بجائی، میں نے اٹھ کر دیکھا تو کو ریئر والا تھا میں نے اس سے اپنے نام آنے والا کورئیر کا پیکٹ لیا جب وہ پیکٹ کھولا تو اندر انتہائی خوب صورت قیمتی تین شادی کے دعوتی کارڈ تھے یہ کارڈ میرے ایک دوست جو اب امریکا شفٹ ہوچکے ہیں ان کی بیٹی کی شادی کے تھے، ایک خوب صورت کارڈ لڑکی کی سہیلیوں کی طرف سے تھا جس میں رسم حنا کے پروگرامات کی تفصیل تھی کہ کتنے بجے مہمانوں کو آنا ہے، کتنے بجے رسم حنا ہوگی، کب سنگیت کی محفل شروع ہوگی اور بھی بہت سے پروگرامات کی تفصیل درج تھی اسی طرح ایک انتہائی مہنگے اور قیمتی کارڈ کی شکل میں شادی کی دعوت دی گئی تھی میں ہاتھوں میں وہ قیمتی کارڈ لیے دیر تک یوں ہی صوفے پر بیٹھا، ان کارڈز کو دیکھتا رہا کہ اگر کارڈ اتنے قیمتی اور خوب صورت ہیں تو شادی پر کتنا روپیہ خرچ کیا جائے گا؟ مجھے اپنے اس دوست کے وہ شب وروز یاد آنے لگے جب ان کے گھر مہینے کی آخری تاریخوں میں کھانے کو راشن نہیں رہتا تھا۔ وہ اسکول پھٹے جوتوں کے ساتھ آتا تھا ۔غربت ان کے گھر دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھی۔ جب اس کی بڑی بہن کی شادی ہوئی تو چند مہمان ان کے گھرآئے تھے۔ ساری بارات کے لیے سالن ایک بڑے دیگچے میں پکا تھا جو ان کی والدہ نے پڑوسن سے لیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ میرا دوست سندھ میڈیکل کالج پہنچ گیا اور وہاں سے امتحان پاس کرکے امریکا چلا گیا۔ آج وہ کروڑ پتی ہے۔ اب وہ اپنی بیٹی کی شادی میں جی بھر کر اپنے ارمان پورے کرنا چاہتا ہے۔



ڈاکٹر صاحب نے دوسرا سگریٹ جلایا اور کہنے لگے میں سوچتا ہوں کہ جب لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی میں اپنی دولت کے بل بوتے پر اپنے ارمان پورے کررہے ہوتے ہیں تب وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس رات شادی سے لوٹنے والے بیٹیوں کے والدین کیسے سوتے ہوں گے؟ جب کوئی بیٹی اپنی ماں سے کہتی ہوگی ’’اماں میری شادی پر بھی تم مجھے ایسا ہی جوڑا لیکر دوگی نا جیسا آج دلہن نے پہنا تھا؟‘‘ اور ماں ہاں کہہ کر منہ دوسری طرف کرلیتی ہوگی پھر اس کے آنسوں وہ تکیہ پی لیتا ہوگا جو اکثر آنسوں چھپانے میں اس عورت کی مدد کرتا ہے۔
پچھلی سیٹ پر بیٹھے نوجوان نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا بھائی آپ نے اشفاق احمدکے ڈرامے کا اس لیے پوچھا تھا کہ اس میں بھی ایسی ہی شادی کی منظرکشی کی گئی ہے؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں اس وقت غالباً میڈیکل کے پہلے سال میں تھا جب میں نے یہ ڈراما دیکھا۔پرویز بھائی بتانے لگے کہ جس روز میں نے یہ ڈراما دیکھا اس رات میں دیر تک اپنے گھرکی بالکونی سے لگ کر بیٹھا رہا میری والدہ رات کے کسی پہر اٹھیں اور انہوں نے مجھے جاگتے دیکھا تو میرے پاس آگئیں اور بولیں ’’پتر کی ہویا اے؟ تو پریشان ایں؟‘‘ میں نے کہا نہیں اماں بس ایسے ہی نیند نہیں آرہی تھی ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں نے اس روز عہد کیا کہ اپنی شادی سادگی سے کروں گا۔ نوجوان نے پوچھا پھر آپ کی شادی کیسے ہوئی؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ شادی سے ایک روز پہلے قاضی حسین احمد صاحب کی طرف سے بطور تحفہ شادی کا سوٹ شلوار قمیض مل گئے تھے وہ بیرون ملک تھے اس لیے خود نہیں آئے تھے۔ عصر کے وقت محلے کی مسجد میں نکاح پڑھایا گیا اور مغرب کی اذان ہوگئی اس وقت تک میں مسجد میں مہمانوں سے مل رہا تھا مہمانوں کی تواضح کھجوروں سے کی گئی تھی۔ عشاء کے بعد گھرکی خواتین جاکر دلہن لے آئیں۔ اگلے روز اپنے گھر کی چھت پر چند دوستوں کو بلا کر ولیمہ کرلیا۔ گاڑی اب تک واپس شاہراہ فیصل پرآچکی تھی۔ اور یہاں ان تینوں دوستوں میں سے ایک اترجایا کرتا تھا۔



اس قدر حساس اور نرم طبیعت کے مالک ڈاکٹر پرویز محمود کو 17ستمبر کو کے ڈی اے چورنگی پر الطاف حسین نے قتل کروایا تھا۔ یہ قتل الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دیا گیا تھا، مگر عجیب معاملہ ہوا اس قتل کے بعد اللہ پاک نے الطاف کے ظلم کی رات کی الٹی گنتی شروع کروا دی یہ الطاف کی سالگرہ کا آخری تحفہ تھا اس کے بعد حالات جیسے بدلے وہ سب کے سامنے ہیں۔
کراچی کے امن کے لیے جن لوگوں نے اپنی جان کی بازی لگا ئی ان میں شہید ڈاکٹر پرویز محمود ایک مینارہ نور ہیں۔ کراچی سے اور یہاں کے لوگوں سے محبت ڈاکٹر صاحب کو یہاں سے کہیں جانے نہیں دیتی تھی۔ شہر کے امن کے لیے ڈاکٹر صاحب نے اس زمانے میں کردار ادا کیا جب ریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب لوگوں کے فیصلے تھانے اور عدالتوں میں نہیں بلکہ سیکٹر اور یونٹ آفس میں ہوتے تھے۔ اس زمانے میں الطاف حسین سے دشمنی رکھنے والے دن کی روشنی میں عباسی ہسپتال جانے سے گریز کرتے تھے تب ڈاکٹرصاحب کی مستقل رہائش زندگی کی آخری شام تک عباسی ہسپتال کی پچھلی گلی میں تھی۔ کراچی میں الطاف حسین کی سرکاری سرپرستی میں جاری بدمعاشی ختم کرنے میں جس دلیری سے ڈاکٹرصاحب لڑے اس کو جہاں ان کے دوست مانتے تھے وہاں ڈاکٹر صاحب کی بہادری اور دلیری کے قائل ان کے سخت مخالفین بھی تھے۔ جماعت اسلامی نے کراچی کے امن کی خاطر جو قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کے قافلے کا ایک بہادر سپوت تھا ڈاکٹر پرویز محمود۔ وہ شخص اندر سے انتہائی حساس، نرم دل، ہمدرد اور دلیر تھا۔ڈاکٹرصاحب آج سخی حسن قبرستان میں میٹھی نیند سورہے ہیں۔ اللہ پاک ڈاکٹر صاحب کی قبرکو اپنے نور سے بھر دے اور کراچی کو ڈاکٹر صاحب اور دیگر شہداء کی قربانیوں کے صدقے امن کا گہوارہ بنادے۔ امین