اُمت کے بکھرے ہوئے دانے

258

ابراہیم جمال بٹ
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق روہنگیا مسلمانوں پر قیامت 2012 ءمیں ٹوٹی جب ساحلی صوبے راکھین میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ کسی ’روہنگیا‘ نے ایک ’بدھ لڑکی‘ کے ساتھ زیادتی کی۔ حقیقت سامنے آتے آتے 200 کے لگ بھگ روہنگیا شہید، ایک لاکھ 40 ہزار بے گھر اور 50 ہزار سے زائد بنگلا دیش کے سرحدی علاقوں میں پناہ گیر ہوگئے۔ تب سے لے کر آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ راکھین سے جہاں روہنگیا کااقلیتی تناسب 25فیصد کے لگ بھگ ہے کسی نہ کسی پرتشدد اور نسلی واردات کی خبر نہ آتی ہو۔ حالاں کہ جس من گھڑت واقعے کو بہانہ بن کر مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا گیا یا اب بھی کیا جا رہا ہے اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی، بلکہ یہ ایک سازش تھی جو ان لوگوں نے رچی جو روہنگیاؤں کو ملک بدر کرنے کے درپے تھے۔ قانونی طور پر بھی اس واقعہ کی کوئی تصدیق نہیں ہو پائی ،اس من گھڑت واقعہ کی چھان بین کے بعد یہ معلوم ہی نہیں ہو پایا کہ اس غلط کاری میں کون لوگ ملوث تھے۔ اصل ہدف روہنگیا ہی تھے اسی لیے فوراً ہی 2 سال بعد قانون کے تحت برما میں ’روہنگیا‘ کی اصطلاح پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہاں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ برما کی فوجی حکومت نے 1982ء کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے مسلمان اور برما میں موجود دوسرے 10 لاکھ چینی و بنگالی مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کر دیا اور ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا۔ 1982ء کے اس قانون کے تحت یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی یہاںرہتا تھا۔ حالاں کہ روہنگیا مسلمانوں میں اکثریت برصغیر کی مشرقی ریاستوں اور بنگالیوں پر مشتمل ان مسلمانوں کی ہے جو جنگ آزادی 1857ء کے بعد گرفتاریوں سے بچنے کے لیے وہاںچلے آئے تھے۔



مختلف بہانے تراش کر آج روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ اپنایا جا رہا ہے اس کی اصل حقیقت ’مسلم دشمنی‘ہے۔ اقوام عالم ان حالات سے بے خبر نہیں ہیں تاہم انہوں نے ان حالات میں خاموشی کا ہی کیوں سہارا لیا؟ اور عملاً ان کی جانب سے کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ بھی ’مسلم دشمنی‘ ہی ہے۔ عالمی سطح پر فی الوقت مسلم دشمنی کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، افغانستان میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں ہو رہا ہے؟ کشمیر میں مسلمانوں کی جان کے ساتھ کیوں کھلواڑ ہو رہا ہے؟ فلسطین، مصر، سوڈان، عراق، چیچنیا، داغستان اور باقی کئی مسلمان ممالک میں خون مسلم کو کیوں بہایا جا رہا ہے؟ اور اتنا خون بہانے کے بعد بھی اقوام عالم خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں؟ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی قومی، لسانی یا کسی ظلم و استیصال کی جنگ نہیں بلکہ یہ مسلم دشمنی پر مشتمل کھیل ہے، جس میں ہر طرف سے کمزور مسلمان کا قتل عام ہو رہا ہے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس سارے منظر کو جو پوری طرح عیاں وبیاں ہے پر مسلم ممالک بھی خاموشی اختیار کیے جا رہے ہیں، کیوں….؟ کئی مبصرین کا ماننا ہے کہ آج کی اس دنیا میں مسلمانوں پر اس قدر خوف طاری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے بھائی، اپنے قریبی رشتے دار اور اپنے پڑوسی کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ نہیں کر پاتے کیوں کہ ان پر خوف طاری ہو چکا ہے ۔ کسی کو بادشاہت کے چھن جانے کا خوف، کسی کو وزارت سے ہاتھ دھونے کا خوف، کوئی خود کو محفوظ رکھنے کے لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ غرض اس خوف اور لالچ کی وجہ سے مسلم ممالک دنیا کی محبت اور موت کے خوف کی وجہ سے آج ذلیل وخوار ہو رہے ہیں، یہ عام مسلمان نہیں بلکہ وہ حکمران ہیں جو مسلمانوں کے سروں پر سوار ہو کر ان کے سروں کا ہی کھیل کھیل کر اپنی کرسی پر براجمان رہنے کے متمنی ہیں۔ عوامی سطح پر کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جہاں لوگ بیدار نہ ہوں۔ آج مسلمانوں کے ساتھ جہاں بھی ظلم و استیصال ہو رہا ہے اس کا درد پوری امت کو ہو رہا ہے جسے پوری دنیا محسوس بھی کرتی ہے کہ کس طرح روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر برسراحتجاج ہو رہی ہے البتہ اس بٹی ہوئی امت پر عیاش اور لالچی حکمرانوں کا طبقہ حاوی ہے جو دنیا کی محبت اور موت کے خوف میں پوری طرح پھنس چکا ہے۔



روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم آج روا رکھا جا رہا ہے اس پر قابو پانا کوئی ناممکن سی بات نہیں ہے، اگر ملت اسلامیہ کی بکھرے ہوئے دانے ایک مالا میں پرو دیے جائیں ،فی الوقت کم از کم ایک جگہ بیٹھ کر اپنی خاموشی توڑ دے تو ان کی ایک آواز میں ایسی طاقت ہے جو کسی بھی ظلم و جارحیت کو روک سکتی ہے۔ مسلمانوں کو جس دن اپنی طاقت کا اندازہ ہو گا، اس دن تمام اقوام جو ان کو مختلف قسم کے بہانوں کاشکار کر کے ان کا خون بہا رہی ہیںکے ہاتھ اٹھنے کی تو دور کی بات سوچنے کی بھی وہ ہمت نہیں کر پائیں گے۔
مسلمان ایک امت ہیں اور اس امت کو ایک جسم کے مانند کہا گیا ہے۔ جسم کے ایک حصے پر زخم لگے اور دوسرا درد محسوس نہ کرے، ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ مسلمان جب تک امت بن کر جی رہے تھے تو پوری دنیا نہ صرف سر نگوں تھی بلکہ ان کے عدل وانصاف کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم، مسلمانوں کی حکمرانی میں رہنے کو فخر تصور کرتے تھے کیوں کہ مسلمانوں کے عدل وانصاف پر مبنی قانون میں ان کے محفوظ رہنے کی ضمانت تھی، انہیں سمجھ آگئی تھی کہ ہمیں اگر کہیں انصاف مل سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اس امت کے پاس ۔ لیکن افسوس کہ شاطروں کی سازشوں کا شکار بن کر اس امت کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، امت اس قدر ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی ہے کہ آج اس کے درجنوں سے زیادہ حصے ہو چکے ہیں
یہ امت اس قدر بکھر چکی ہے کہ درد کیا کسی کی خوشی بھی برداشت نہیں کر پا رہی ہے۔ ایک مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک کے خلاف کاروائیاں کر نے میں پیش پیش رہتا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے عالمی حالات جب سامنے رکھتے ہیں تومسلمان حکمران اپنی ڈفلی بجاتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان جب دہشت گردی کی لعنت سے پاک تھا تو ’امریکا بہادر‘ نے پاکستانی زمین استعمال کر کے افغانستان پر اپنا نزلہ اُتارا، جس کے نتیجے میں آج تک لاکھوں کی تعداد میں افغان مارے گئے، پاکستانی حکمرانوں کا تماشائی بن کر دشمن کے ہاتھوںمیں ہاتھ ڈالنا ہی تھا کہ امریکا بہادر کا وہ خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا کہ تب سے لے کر آج تک پورا پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ یہ اپنوں سے دشمنی اور غیروں سے دوستی کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟ مصر میں قابض جنرل سیسی نے حکومت کی کایا پلٹ کر جب آمریت کا نقاب پہن لیا تو یہ اسلامی ممالک ہی تھے جن میں خاص کر عرب ممالک جنہوں نے چپ سادھ لی، اخوان المسلمون کے جیالے جن کا مقصد صرف اور صرف اسلام تھا، ابھی اسلام عملی صورت میں آیا ہی نہیں تھا بلکہ اسلام پسند لوگ ہی سامنے آئے تھے کہ ان پر غیروں نے نہیں اپنوں نے ستم ڈھائے، دور عرب ممالک میں بیٹھے عیاش اور مرعوبیت زدہ مسلم حکمرانوں نے نہ صرف تماشا دیکھا بلکہ پیٹھ پیچھے اس شخص کی مدد کی جو مصر میں خون کی ہولی کھیل رہا تھا۔



افغانستان میں مسلمان مرتے رہے ، مسلم ممالک سے وابستہ حکمران دیکھتے رہے، فلسطین میں مسلمان کٹتے جا رہے ہیں اور ان کی جدوجہد کو غیر تو غیر اپنے آس پاس کے مسلمان ممالک دہشت گردی کا لیبل لگارہے ہیں۔ یہ وہی فلسطین ہے جہاں کی جدوجہد صرف فلسطین کی جدوجہد نہیں بلکہ یہ عرب ممالک کی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیر میں خاک اور خون کا کھیل نصف صدی سے زائد عرصہ سے جاری ہے اور مسلم ممالک ’او آئی سی‘ میں بناوٹی ہاہاکار مچا رہے ہیں اور تماشائی بنے خواب دیکھ رہے ہیں کہ ’ہم صحیح سلامت ‘ ہیں۔ عراق میں امریکا داخل ہوا تو مسلم ممالک خاموش، امریکا کی بے جامداخلت کے لیے بہانہ تراشا گیا اور پورے عراق کو خون آلود کر دیاگیا۔ آج بھی وہاں اسی صورت حال کا سامنا ہے لیکن مسلم ممالک کے حکمران تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ بنگلا دیش میں مسلمانوں کو ظالم حکومت تہہ تیغ کرنا چاہتی ہے اور اس کے پڑوسی مسلم ممالک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح باقی دوسرے مسلم ممالک کا حال دیکھیے، ہر جگہ مسلمان بکھرے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی مسلمان عربیت کے نشے میں چور ہے، توکوئی زبان اور رنگ کی برتری کا شکار، کوئی تیل کے ذخائر سے مالامال ہو کر اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو کمتر درجہ دینے جیسے نشے میں چور۔ غرض آج مسلم ممالک سے وابستہ حکمرانوں کا ٹولہ بک چکا ہے، ان پر اس قدر خوف طاری ہو چکی ہے کہ وہ اس سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ انہیں اپنی کرسی اور بادشاہت اس قدر لبھا رہی ہے کہ اس کے لیے اگر آنکھوں پر پٹی ہی باندھنے پڑے تو وہ بھی کر لیتے ہیں۔ اسی خوف کی وجہ سے آج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ہوتے ہوئے بھی دیکھا جارہا ہے۔ کوئی کچھ نہیں کر پاتا البتہ اگر کوئی مقدور بھر کوشش کرے تو اس کی شاباشی کے بجائے اس کے عملی اقدام کو دکھاوا کہا جاتا ہے۔ اصل میں یہ سب کچھ اسلام کے بنیادی ارکان سے دوری کے نتیجے میں نہیں بلکہ پورے اسلام سے نظریں پھیر دینے کا نتیجہ ہے۔ اسلام کو جب سے ’بحیثیت نظام زندگی‘ہم نے تسلیم نہیں کیا تو ہمارے اندر قومیت پیدا ہوئی، ہم فرقوں میں بٹ گئے، ہم شاخوں کو ہی کل اسلام سمجھنے لگے اور اس طرح ہم روز افزوں بٹتے گئے اورآج حال یہ ہے کہ ہم نہ صرف بکھر گئے بلکہ ایک دوسرے کے دشمن بھی ہو گئے۔
بکھری ہوئی اس امت کا علاج صرف اور صرف اسی نظام زندگی میں ہے جسے ہم کہیں چھوڑ چکے ہیں۔ بکھری ہوئی اس سیسہ پلائی ہوئی امت کا دانہ دانہ اگر ایک مالا میں پھر سے جمع ہو جائے تو یہ مالا نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پوری دنیا کی گردن کی زینت بن سکتی ہے، یہ نہ صرف مسلمانوں کی عزت ووقار کو بحال کر سکتی ہے بلکہ ایک مرتبہ پھر عوام الناس کو خیر وعافیت ، عدل وانصاف کا ماحول فراہم کر سکتی ہے۔ یہ کوئی جذباتی دعویٰ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے اس کا اداراک چاہے کوئی کرے یا نہ کرے تاہم تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں جس میں اسلامی نظام کے وہ درخشندہ باب درج ہیں ، اسلام کس طرح اپنوں کے ساتھ غیروں کا غم خوار، عدل وانصاف کا عملی دعوے دار اور اخلاق ومعاشرے کا عملی نمونہ دکھاتا ہے، یہ سب کچھ تاریخ کے اوراق میں سنہرے الفاظ میں موجود ہے۔ ضرورت ہے اس ’نظام حیات‘ کو صحیح طور سمجھنے کی ،پھر سے ایک مضبوط مالا بُننے کی۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے