ڈاکٹر وسیم علی برکاتی
صاحبو! سنتے آئے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔ قانون اندھا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی سننے میں آتا ہے کہ عقل بھی اندھی ہوجاتی ہے۔ اور پھر جناب محبت کوئی جان بوجھ کر تھوڑا ہی ہوتی ہے بلکہ یہ تو ہوجاتی ہے۔ جس طرح ٹینشن جان بوجھ کر نہیں ہوتی بلکہ یہ تو خود بہ خود ہوجاتی ہے۔ ایک صاحب کا پورا کار خانہ جل گیا کوئی ان سے کہنے لگا بھائی ٹینشن بالکل نہیں لینا اور فکر نہ کرنا۔ وہ صاحب جن کا پورا کارخانہ جل گیا تھا اور وہ بے انتہا پریشان بھی ہورہے تھے۔ اس جملے سے خود بھی جل بھن گئے اور کہنے لگے کہ میں نے اتنا قرض لے کر اور بڑی انوسٹمنٹ کرکے یہ کام شروع کیا تھا۔ اب اس کی ادائیگی کی فکر اور ٹینشن آپ لے لیں گے یا کوئی اور لے گا۔ اسی طرح محبت کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ یہ خود بخود ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دل آیا کالی پر تو گوری کیا چیز ہے۔ پھر ہمارے شاعر اعظم مرزا اسد اللہ خان غالب نے کہا ہے کہ محبت پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ اسی طرح ہماری پاکستانی قوم بھی اپنے تنظیمی لیڈران و حکمرانوں سے اندھی محبت کرتی ہے۔ اور صاحب محبت میں تو ہم دیکھتے ہی ہیں کہ کس طرح ہیروئن اپنا سب کچھ ایک نکھٹو اور ایک روپیہ نہ کما سکنے والے ہیرو پر قربان کردیتی ہے۔ ہیروئن کا باپ کہہ بھی رہا ہوتا ہے کہ دیکھو جتنے کی تم ساڑھی پہنتی ہو اتنی تو اس کی ماہانہ تنخواہ بھی نہیں ہے۔ لیکن صاحب کیا مجال کہ جو ہیروئن باپ کی بات مان لے۔ کیونکہ صاحب محبت تو اندھی ہوتی ہے۔
اگر ہمارے بھولے عوام اپنے لیڈرز سے محبت کرتے ہیں اور ان پر اپنی جان اور مال قربان کرتے ہیں اور یہی لیڈرز حکمران بن کر اگر ان کے ساتھ بے وفائی کرتے ہیں یا ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتے تو یہ تو محبت کا حصہ ہے۔ محبت میں تو بے وفائی کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ اور پھر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ کہ وعدہ ٹھیرا کوئی قرآن و حدیث کی بات تو نہیں ہے۔ اور پھر ہمارے لیڈر کتنے سچے ہیں کہ عوام کو پہلے سے ہی آگاہ بھی کردیتے ہیں کہ جمہوریت سب سے بڑا بدلہ ہے۔ پھر بھی اگر عوام نہ سمجھیں تو یہ تو عوام کی غلطی ہوئی نا کہ ہمارے لیڈروں کی۔ لیکن پھر تھوڑا بھائی بقراطی نے سوچا کہ جمہوریت میں یہ بدلہ کس سے لیا جارہا ہے تو خود ہی بول پڑے کہ یار پچھلی جمہوریت میں پانی کا بل ڈیڑھ سو روپے تک آتا تھا اب اس جمہوریت میں چار سو روپے ہوگیا ہے۔ پچھلی جمہوریت میں بجلی کا بل چار ہزار روپے آتا تھا اب بجلی کا بل سات سے آٹھ ہزار آرہا ہے۔ اور پچھلی جمہوریت میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ چار سے پانچ گھنٹے ہوتی تھی اوراب اس جمہوریت میں لوڈ شیڈنگ چار سے چھ گھنٹے کی ہوگئی ہے۔ پھر خیالوں میں کھوئے کھوئے سے خود ہی کہنے لگے کہیں میں ہی تو بدلے کا شکار نہیں ہورہا۔ پچھلی جمہوریت میں پٹرول ساٹھ روپے روز کا ڈلواتا تھا اور اب موٹر سائیکل میں پٹرول پچھتر روپے کا ڈلوانا پڑتا ہے۔ پہلے بچہ کے اسکول کی فیس دو سو روپے تھی اور اس جمہوریت میں اسکول کی فیس آٹھ سو روپے سے لے کر چودہ ہزار روپے تک ہے۔ جب کہ جمہوریت میں تو تعلیم حکومت کی ذمے داری اور اولین فرائض میں ہوتی ہے؟ پچھلی جمہوریت میں ہر پاکستانی پچھتر ہزار کا مقروض تھا تو اس جمہوریت میں سوا لاکھ کا مقروض ہوگیا ہے۔
لیکن محبت تو اندھی ہوتی ہے۔ ہم چا ہے خود تباہ و برباد ہوجائیں، ہماری نسلیں مقروض ہوجائیں، ہم قرض اور ٹیکس کے بوجھ تلے دب کر غلام قوم بن جائیں لیکن اپنے حکمرانوں سے محبت کرتے رہیں گے۔ اور پھر اس محبت میں بیچ میں چھوٹی موٹی آزمائش ضمنی طور پر آتی ہی رہتی ہیں۔ جیسے اے بھائی بے کار کچھ تو کیا کر نہ ہو کچھ کرنے کو تو ہیلمٹ پر پابندی دیا کر۔ اس پابندی کے نتیجے میں پولیس جگہ جگہ بے چارے دکھی عوام کو جس کے پاس بچے کے دودھ پلانے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ ان سے دو سو، ڈھائی سو روپے کی سودے بازی کررہے ہوتے ہیں۔ پچھلی جمہوریت میں سڑکیں بے حال تھیں تو اس جمہوریت میں سڑکوں کی حالت بد حال ترین ہوچکی ہے۔ صحیح ہے اس طرح تو جمہوریت عوام سے لیا جانے والا بہترین بدلہ ہے۔
بھائی بقراط گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے خود سے ہم کلام تھے۔ اور ان کے محبوب حکمران لندن کے محلوں میں براجمان تھے علاج کی غرض سے، تعلیم کی غرض سے، کاروبار کی غرض سے عنایت علی خان نے کہا ہے کہ ’’قوم ہے مشکل میں اور مشکل کشا انگلینڈ میں‘‘ ایسے میں پاکستانی قوم کے دکھوں، پریشانیوں اور مسائل کو حل کون کروائے گا۔ شاید مسیحا پاکستان میں نہیں لندن میں ہی ہوتے ہیں۔ اور بھائی بقراط اپنے روتے ہوئے بچے کو پانچ روپے کی ٹافی (جو ایک روپے کی ہونی چاہیے تھی اور مختلف ٹیکس شامل کرکے پانچ روپے کی ہوگئی تھی) نہیں دلا رہے تھے کیونکہ ان کے پاس ناشتے کے دودھ کے پیسے ہی تھے تو بچے کو چار روپے ٹیکس والی ٹافی کہاں سے دلاسکتے تھے۔ لیکن پاکستانی قوم اپنی محبت میں بڑی پکی ہے۔ یہ ووٹ ا۔ ب۔ ج۔ د ہی کو دیں گے۔ چاہے۔ ان کو اس محبت میں سی ویو میں ہی رہنا پڑے۔ چاہے اگلی برسات میں ان کے گھر، فصلیں، گاؤں، دیہات یا وہ خود ہی کیوں نہ ڈوب جائیں۔ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔