این اے 120کے نتائج آنے سے قبل بعض سیاسی مبصرین کی جانب سے جہاں اس نشست پر بیگم کلثوم نواز جیسی گھریلو خاتون کے امیدوار نامزد کیے جانے کی حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا وہاں پاناما فیصلے کے بعد نواز شریف کی نااہلی اور اس نااہلی کے نتیجے میں پی ٹی آئی اور خاص کر عمران خان کی عوامی مقبولیت اور پزیرائی میں ہونے والے اضافے نیز بعض خفیہ قوتوں کی جانب سے شریف خاندان کو دباؤ میں رکھنے کی مبینہ قیاس آر ائیوں کے تناظر میں بھی شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کوبیگم کلثوم نواز کو این اے120کے انتخابی معرکے میں اُتارے جانے کو اکثر سیاسی تجزیہ کار کمزور فیصلے پر محمول کر رہے تھے اورخاص کر نامزدگی کے اچانک بعدجب بیگم کلثوم نواز لندن روانہ ہوئیں اور وہاں سے اطلاع آئی کہ بیگم صاحبہ کینسر کے عارضے میں مبتلاہیں تو عام تاثر یہی تھا کہ اس صورتِ حال کا زیادہ تر نقصان مسلم لیگ (ن) کو انتخابی مہم کی ناکامی اور شاید آ گے جا کرخراب انتخابی نتائج کی صورت میں بھی بھگتنا پڑ سکتاہے۔ اسی طرح جب این اے 120میں جاری انتخابی مہم کے دوران یہ اطلاعات بھی زیر گردش ر ہیں کہ میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہبازشریف نے بھی اندرونی اختلافات اور بیگم کلثوم نواز کو امیدوار نامزد کیے جانے کے خلاف بطور ناراضی انتخابی مہم سے لاتعلقی اختیار کر رکھی ہے تو اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بعض مواقع پریہ خدشات بھی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے کہ شاید مسلم لیگ(ن) کے لیے یہ سیٹ برقرار رکھنا ممکن نہ رہے اور ایک بڑے ٹف مقابلے اور اپ سیٹ کے نتیجے میں شاید پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گی لیکن گزشتہ روز کے نتائج نے ان تمام انداز وں اور تجزیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
یہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ مناسب ہو گا کہ جب اس حلقے کا ضمنی الیکشن فوج کی نگرانی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ تجرباتی بنیادوں پر بائیو میٹرک سٹم کے تحت منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس حوالے سے بھی بعض حلقوں کی جانب سے ان تحفظات کا اظہار سامنے آیا تھا کہ یہ سب کچھ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ اور بیگم کلثوم نواز کو ہر حال میں ہرانے کی غرض سے کیا جارہاہے لیکن اب جب یہ تمام خدشات اور تجزیے نتائج آنے کے بعد غلط ثابت ہو چکے ہیں تو اس صورتحال پر مسلم لیگ( ن) کا خوشی کے شادیانے بجانے اور پی ٹی آئی کے پاس ان نتائج کو تسلیم کرنے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 88 فی صد نتائج کی بائیو میڑک سسٹم کے ذریعے تصدیق نیز فوج کی براہ راست نگرانی میں اس انتخاب کے منعقد ہونے کے بعد شاید کسی کے پاس بھی دھاندلی کے شور کا سہارا لینے کی گنجائش نہیں ہے البتہ پی ٹی آئی کے نقطہ نظر سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کی صوبائی اور مرکزی حکومت میں ہونے کے باوجود اپنی بھر پور انتخابی مہم کے ذریعے جو زبردست مقابلہ کیا ہے اس کے ذریعے پی ٹی آئی کم از کم پنجاب کی حد تک خود کو مسلم لیگ(ن) کی حقیقی اپوزیشن جماعت ثابت کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئی ہے جب کہ دوسری جانب پیپلزپارٹی جس کے سربراہ آصف علی زداری کافی عرصے سے پنجاب کو فتح کرنے اور لاہور کو مسلم لیگ (ن ) سے چھیننے کے دعوے کر رہے ہیں کے لیے این اے 120پر پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر کی 2692 ووٹروں کے ساتھ ضمانت ضبط ہونا 2018کے عام انتخابات کے تناظر میں یقیناًایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔