آرمی چیف کی جانب سے یہ بات سامنے آنے کے بعد نواز شریف کی پوزیشن مزید خراب ہوگئی ہے۔ آرمی چیف نے کلثو نوازم کی جیت پر شہباز شریف کو مبارکباد دی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ اب معاملات نہیں ہوں گے۔ بہر حال فوج کے سربراہ کے بیان کو اس کی ظاہری حالت ہی میں قبول کیا جانا چاہیے۔ فوج کیا اقدامات کرتی ہے اس کے بعد کچھ کہا جاسکے گا۔ ویسے فوج اور ن لیگ حکومت میں تناؤ کی تردید کے باوجوداس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ تناؤ تو انتہا تک تھا ورنہ آئی ایس پی آر کے بیانات اور حکومتی جوابات تک نوبت نہیں آتی۔ آرمی چیف کی وضاحت کی روشنی میں رضا ربانی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کے بیانات کی کیا حیثیت ہوگی اس کی وضاحت اب ان دونوں کو خود کرنا ہوگی۔ دونوں جانب سے اس حوالے سے واضح اشارے کیے گئے تھے کہ طاقت کا کوئی مرکز جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی تیاری کررہاہے۔ اگرچہ نام نہیں لیا گیا تھا لیکن پاکستان میں ایسے بیانات کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ فوج مداخلت کررہی ہے۔ جہاں تک فوج اور سیاست دانوں میں ڈائیلاگ کی بات ہے تو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ آرمی چیف سمیت تمام ہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئین کی بالادستی ضروری ہے جب آئین کی بالادستی ہوگی تو ہر شعبہ اپنا کام کر رہا ہوگا فوج کا کام اور اختیارات بھی آئین میں واضح ہیں اور پارلیمنٹ کے اختیارات بھی۔ لہٰذا فوج اور سیاست دان کوئی دشمن نہیں کہ ان کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت پڑے۔ دونوں اداروں کو آئین سے رجوع کرنا چاہیے۔ جب آئین بالادست ہوگا اور ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں کام کررہاہوگا تو کوئی تنازع پیدا نہیں ہوگا۔