آرمی چیف کی وضاحت

332

Edarti LOHپاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاہے کہ پاناما کیس سے تعلق نہیں، جمہوریت کا حامی ہوں، پاناما کا معاملہ عدالتیں چلارہی ہیں اندازے لگانے والے لگاتے رہیں، سول ملٹری تعلقات میں کوئی تناؤ نہیں چار سال وزیر خارجہ نہ ہونے سے نقصان ہوا۔ سابق وزیراعظم سے بھی اچھے تعلقات تھے اور موجودہ سے بھی ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ فرسودہ روایات توڑنا چاہتاہوں۔ آرمی چیف پارلیمنٹ کیوں نہیں جاسکتا۔ انہوں نے فوج اور سیاست دانوں میں مکالمے کی تجویز بھی دی ہے۔ پاکستانی سیاست کے ماضی، حال اور مستقبل کی روشنی میں یہ بات کسی کو ہضم نہیں ہوسکتی کہ پاکستانی فوج کے سربراہ کا سیاست یا کسی سیاسی مسئلے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ آرمی چیف جمہوریت کا حامی ہے۔ یہ بات عجیب سی ہے اگر آرمی چیف جمہوریت کا مخالف ہوگا تو کیا وہ اس کا اعلان کرے گا؟؟ ایسا تو کبھی نہیں ہوتا، آرمی چیف کو جو کرنا ہوتا ہے کر گزرتا ہے۔ انہیں یہ وضاحت اس لیے کرنا پڑی کہ میاں نواز شریف کی جانب سے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ فوج بھی ان اداروں میں شامل ہے جو ان کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ آرمی چیف کی وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی مہم کسی حد تک کامیاب رہی ہے۔ کم از کم اتنی کامیابی تو ملی کہ آرمی چیف کو یہ وضاحت کرنا پڑی۔ یہ اور بات ہے کہ اب میاں صاحب کو اس مہم کی مزید قیمت ادا کرنی پڑے ۔ پاکستان میں معاملات کوئی بھی چلارہا ہو سمجھا یہی جاتا ہے کہ اس کے پیچھے فوج ہے۔ بہر حال پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے اس حوالے سے کھل کر بات کرنا خوش آئند ہے۔ انہوں نے چار سال وزیر خارجہ نہ ہونے پر نقصان کا ذکر کیا ہے لیکن سابق حکمران یہ تاثر دیتے رہے کہ فوج ہی در اصل وزیر خارجہ کے تقرر میں رکاوٹ ہے۔ اور فوج ہی خارجہ معاملات چلارہی ہے۔



آرمی چیف کی جانب سے یہ بات سامنے آنے کے بعد نواز شریف کی پوزیشن مزید خراب ہوگئی ہے۔ آرمی چیف نے کلثو نوازم کی جیت پر شہباز شریف کو مبارکباد دی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ساتھ اب معاملات نہیں ہوں گے۔ بہر حال فوج کے سربراہ کے بیان کو اس کی ظاہری حالت ہی میں قبول کیا جانا چاہیے۔ فوج کیا اقدامات کرتی ہے اس کے بعد کچھ کہا جاسکے گا۔ ویسے فوج اور ن لیگ حکومت میں تناؤ کی تردید کے باوجوداس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ تناؤ تو انتہا تک تھا ورنہ آئی ایس پی آر کے بیانات اور حکومتی جوابات تک نوبت نہیں آتی۔ آرمی چیف کی وضاحت کی روشنی میں رضا ربانی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کے بیانات کی کیا حیثیت ہوگی اس کی وضاحت اب ان دونوں کو خود کرنا ہوگی۔ دونوں جانب سے اس حوالے سے واضح اشارے کیے گئے تھے کہ طاقت کا کوئی مرکز جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی تیاری کررہاہے۔ اگرچہ نام نہیں لیا گیا تھا لیکن پاکستان میں ایسے بیانات کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ فوج مداخلت کررہی ہے۔ جہاں تک فوج اور سیاست دانوں میں ڈائیلاگ کی بات ہے تو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ آرمی چیف سمیت تمام ہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئین کی بالادستی ضروری ہے جب آئین کی بالادستی ہوگی تو ہر شعبہ اپنا کام کر رہا ہوگا فوج کا کام اور اختیارات بھی آئین میں واضح ہیں اور پارلیمنٹ کے اختیارات بھی۔ لہٰذا فوج اور سیاست دان کوئی دشمن نہیں کہ ان کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت پڑے۔ دونوں اداروں کو آئین سے رجوع کرنا چاہیے۔ جب آئین بالادست ہوگا اور ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں کام کررہاہوگا تو کوئی تنازع پیدا نہیں ہوگا۔