سندھ پولیس کے انسداد دہشت گردی کے شعبے سی ٹی ڈی کے ایڈیشنل آئی جی ثنااﷲ عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ سینٹرل جیل کراچی سے قیدی بھاگے نہیں بھگائے گئے تھے۔ قیدیوں کا بھگایا جانا اتنا خطرناک نہیں ہے جتنی خطرناک بات انہوں نے بتائی کہ جیل کا نظام ہی قیدیوں کے ہاتھ میں تھا تمام دستاویزات بھی قیدی ہی بنارہے تھے۔ جیل کی یہ صورتحال بھی نئی نہیں ہے لیکن اس کا ایک ذمے دار افسر کی جانب سے اعتراف یہ بتارہا ہے کہ اب حالات حدود کو عبور کرچکے ہیں۔ ویسے یہ معاملہ صرف کراچی جیل کا نہیں ہے۔ پاکستان میں تو اربوں روپے کرپشن کرنے والے، آئین توڑنے والے، قتل کے مقدمات میں ماخوذ،منی لانڈرنگ کے ملزمان سمیت ہر ملزم کو بھگایا جاتا ہے ۔ کبھی قانون کا سہارا لے کر، کبھی لا علمی کی بنیاد پر، سارے جرائم پیشہ لوگ بیرون ملک جا بیٹھے ہیں۔ یہ بے چارے مہرے تو کل افغانستان سے پکڑ لائے جائیں گے لیکن وہ جو بڑے بڑے مجرم ہیں کل کو رہنما بن کر آجائیں گے۔