اندرونی خطرات بمقابلہ بیرونی خطرات

390

مظفر ربانی
جس طرح ہم 70 سال میں یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس ملک کا طرز حکومت کیا ہوگا مختلف کردار یا اسٹیک ہولڈرز اپنی اپنی طاقت کا موقع بموقع مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور اسی رسہ کشی میں کبھی جمہوریت پٹڑی پر آ جاتی ہے تو کبھی مطلق العنانی کا راج ہو جاتا ہے لیکن قوم محکوم ہی رہتی ہے ۔ ہم اسکولوں کا ایک یونیفارم تک نہیں بنا سکے، ایک نصاب پر ابھی تک متفق نہ ہو سکے یہاں تک کہ قومی زبان کو اس کا جائز حق تک نہیں دے سکے۔ جن عدالتوں سے اردو کے نفاذ کے احکامات جاری ہوتے ہیں انہیں کے فیصلے انگریزی میں جاری ہوتے ہیں الغرض ہم یہ بھی نہیں جان سکے کہ طلبہ کو درسی اور نصابی سرگرمیوں کے علاوہ سیاست اور معیشت کی تربیت بھی دینی چاہیے کیوں کہ آخر ملک کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں آنی ہے۔ علم کا مقصد صرف بہتر ذریعہ معاش ہی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی فکری تہذیبی تربیت بھی ہوتا ہے اگر پورے ملک میں ایک نصاب کے تحت تعلیم دی جائے تو کون ہے جواس ملک کی شیرازہ بندی کے آگے رکاوٹ بن سکے۔ اسی طرح ہم پچیس سال سے یہ بھی فیصلہ نہیں کرسکے کہ ہم کو اندرونی خطرات زیادہ ہیں یا بیرونی خطرات! اگر دونوں باتیں ہی ہم پلہ اور ہم وزن ہیں تو پھر قوم کو صرف اور صرف اندرونی خطرات کے حوالے سے ذہنی طور پر کیوں تیار کیا جا رہا ہے، اگر ایسا ہے تو ایٹم بم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور دیگر سامان حرب کیوں تیار کیے جا رہے ہیں؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرونی خطرات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا رہا مگر ایک مخصوص سوچ کے تحت قوم کو صرف اندرونی خطرات سے ہشیار رہنے کی صلاح دی جا رہی ہے۔



بیرونی دشمنوں کی طرف سے مطمئن رہنے کا زہر کانوں میں گھولا جا رہا ہے اور باالفاظ دیگر بیرونی خطرات کی طرف سے قوم کو غافل رکھنے کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی کی جا رہی ہے، اگر خواب غفلت میں پڑی قوم پر اچانک بیرونی حملہ ہوتا ہے تو وہ یہی سوچتی رہے گی کہ یہ اندرونی حملہ ہے یا بیرونی۔
اپنے ہی ملک میں اپنے باسیوں کے خلاف مختلف قسم کے آپریشن کر کے ہم خود کو نہ صرف اندرونی طور پر کمزور کر رہے ہیں بلکہ اپنے ازلی دشمنوں کے لیے باعث اطمینان اقدام کر رہے ہیں اوردشمن موقعے کی تلاش میں ہے جیسے ہی اندرونی سطح سے کوئی غلط سگنل دشمن کو ملتا ہے ۔ پاکستان پر کم از کم تین اطراف سے حملے کے خطرات موجود ہیں ضیا شاہد صاحب نے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے سامنے جو چشم کشا ہوشربا اور خطرناک بریفنگ دی تھی اس کے بعد کون محب وطن ہے جو اس بات سے انکار کر سکے کہ پاکستان کو اصل خطرات اندرونی نہیں بلکہ بیرونی ہیں۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ ایران، بھارت اور امریکی افواج اور ان تمام دشمنوں کی خفیہ ایجنسیا ں کس طرح کے حملے کر سکتی ہیں مثال کے طور پر سانحہ کارساز (کراچی) سانحہ آرمی پبلک اسکول (پشاور) اور جی ایچ کیو جیسے حملے کیے جا سکتے ہیں اور پھر ان حملوں کی اندرونی خطرات کی راگنی گاتے ہوئے لگاتار ایسے حملے کیے جائیں گے اور یہ تاثر دیا جائے گا کہ پاکستان اب محفوظ ملک نہیں رہا اور نہ اس کا ایٹمی اثاثہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔



اس طرح اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر امریکی افواج پاکستان میں داخل ہو جائے گی اور پھر مانیٹرنگ کا نظام آ سکتا ہے جس کی کمان کسی اسلامی ملک کے کسی جنرل کے سپرد کی جا سکتی ہے جو بظاہر مسلمان ہوگا مگر کام امریکی سی آئی اے کے لیے کر رہا ہوگا، یہ بھی ممکن ہے کہ وہ موساد اور را کے لیے بھی اپنی ’’ پیشہ ورانہ‘‘ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے لیکن کام در اصل ملک میں خانہ جنگی کی آگ کو بھڑکانا ہوگا پھر ملک کی سلامتی اور سلامتی کے اداروں کے کردار پر انگشت نمائی ہونے لگے گی اور اس کے بعد اصل حدف ہمارا ایٹمی پلانٹ دشمنوں کے نرغے میں ہوگا۔ اندرونی خطرات کا شور صرف اس لیے مچایا جا رہا ہے کہ قوم کو بیرونی دشمنوں کی طرف سے نہ صرف غافل رکھا جائے بلکہ وہ ان کو دشمن کے بجائے اپنا دوست سمجھتے رہیں۔
امریکا سے آنے والی ہر پالیسی کو بلا چوں چرا اپنا لینا کوئی دانش مندی نہیں بلکہ اس پر ملک کے دانشوروں کو بلانا چاہیے۔جو تاریخ جغرافیہ اور عالمی سیاست پر عبور رکھتے ہوں اور مختلف اقوام کی تاریخ کے بھی ماہر ہوں چوں کہ ہم کو کسی ایک خاص قوم سے خطرہ نہیں بلکہ کئی قسم کے دشمنوں کا سامنا ہے کوئی گوری چمڑی کا ہے تو کوئی کالی کوئی مشرک ہندو ہے تو کوئی اہل کتاب ہے۔ فی زمانہ دنیا بھر کے تمام کفار و یہود و ہنود اسلام کو ہی اپنا اصل دشمن سمجھتے ہیں اور وہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے در پے ہیں اس لیے ایسے دانشوروں کو زحمت دی جائے جو حقیقی خطرات کا ادراک کر سکیں اور اس کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کر سکیں۔