پاکستان کا وزیر خزانہ عدالت کو مطلوب!

473

Edarti LOHایسا شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہو کہ کسی وفاقی وزیر کے وارنٹ جاری ہوگئے ہوں، گھر پر چھاپے پڑ رہے ہوں اور اثاثے ضبط کرنے کا حکم دے دیا گیا ہو مگر وہ اپنے منصب پر جما رہے۔ اور منصب بھی کیسا، وزیر خزانہ کا۔ گزشتہ بدھ کو اثاثہ جات ریفرنس کیس میں احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے اور نیب کی ٹیم نے گرفتاری کے احکامات اور سمنز کی تعمیل اسحاق ڈار کے گھر جاکر ان کے ملازمین سے کروائی کیونکہ اسحاق ڈار تو محترمہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں ہیں اور ان کا کہناہے کہ کلثوم نواز کی صحت یابی تک واپس نہیں آؤں گا۔ اﷲ تعالیٰ بیگم کلثوم کو جلد از جلد شفاء کاملہ عطا کرے تاکہ لندن میں موجود بہت سے لوگ وطن واپس آسکیں۔ نیب کی طرف سے اسحاق ڈار کی جائداد کی قرقی کی کارروائی شروع ہوگئی ہے اور بینکوں ودیگر اداروں کو خطوط لکھ دیے گئے ہیں کہ اسحاق ڈار کے نام پر اثاثوں کی خرید و فروخت اور منتقلی نہ کی جائے۔ اسحاق ڈار نا اہل قرار دیے گئے وزیر اعظم نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں۔ اسحاق ڈار کو احتساب عدالت نے بدھ 20 ستمبر کو طلب کیا تھا لیکن عدم پیشی پر ان کے وارنٹ جاری کردیے اور انہیں 25 ستمبر کو دوبارہ طلب کرلیا ہے لیکن تین چار دن کے اندر ان کی وطن واپسی کا امکان نہیں ہے۔ اسحاق ڈار نے ابھی تک اپنے منصب سے استعفا نہیں دیا ہے اور ممکن ہے کہ وہ بھی یہی کہتے ہوں کہ میں کیوں استعفا دوں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کہتے ہیں کہ حکومت عالمی سطح پر تماشا بن گئی اور ملکی وقار پر دھبا لگارہی ہے، حکمران عدلیہ اور اداروں کے بارے میں اپنا رویہ درست کریں۔ دوسری طرف نظام عدل کی صورتحال یہ ہے کہ ایک عدالت کوئی حکم جاری کرتی ہے تو دوسری عدالت اس حکم کو معطل یا منسوخ کردیتی ہے اور پھر معاملہ تیسری عدالت میں پہنچتا ہے۔



گیند کبھی اس کورٹ میں اور کبھی اس کورٹ میں۔ معاملات ٹلتے رہتے ہیں۔ اگر کسی عدالت کا فیصلہ غلط قرار دیا جائے تو اس سے باز پرس تو کی جائے۔ اب اسحاق ڈار کے خلاف نیب عدالت نے ایک فیصلہ جاری کیا ہے۔ اسحاق ڈار دوسری عدالت سے رجوع کریں گے، ضمانت کروائیں گے یا مقدمہ لڑیں گے، نظر ثانی کی اپیل بھی ہوسکتی ہے۔ اس پورے عرصے میں ممکن ہے کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ کے منصب پر کام کرتے رہیں۔ عملاً تو نا اہل قرار دیے گئے وزیراعظم بھی لندن میں بیٹھ کر حکومت چلارہے ہیں اور موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میرے وزیراعظم تو نواز شریف ہیں۔ یعنی وہ بھی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے۔ جہاں تک اثاثے ضبط کرنے کی بات ہے تو اسحاق ڈار سمیت بہت سے حکمرانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں اور عموماً دبئی میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو اثاثے ضبط ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے پاس بیرون ملک اتنے اثاثے ہوتے ہیں کہ وہ تو کیا ان کی اولاد بھی عیش کرسکتی ہے۔ البتہ خود اسحاق ڈار کو سوچنا چاہیے کہ ان پر جو الزامات ہیں ان کا حتمی فیصلہ ہونے تک وہ وزارت سے مستعفی ہوجائیں اور اگر دامن صاف ہوجائے تو پھر کسی منصب پر فائز ہوجائیں۔ لیکن یہ مشورہ تو ان کے لیڈر نواز شریف نے بھی نہیں مانا ورنہ کچھ عزت رہ جاتی۔ اسحاق ڈار کو خود شرم آنی چاہیے کہ ان کی گرفتاری کے لیے پاکستان میں ان کے گھر پر چھاپے پڑرہے ہیں۔



اسحاق ڈار اگر اگلی پیشی پر بھی حاضر نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوجائیں گے لیکن ان کے لیے کسی دوسری عدالت سے ضمانت کروالینا مشکل نہیں ہوگا، بشرطیکہ وہ واپس آئیں ۔ بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس عرصے میں اندرونی قرضوں کے علاوہ پاکستان پر بیرونی قرضے بے تحاشا بڑھے ہیں۔ انہوں نے کشکول توڑنے کے بجائے پاکستان کو عالمی سود خوروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے اور یہ قرضے ادا نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان کو دیوالیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے ان کی ان خدمات کے عوض کوئی عالمی سود خور ادارہ انہیں گود لے لے۔ وہ ایسے ماہر معاشیات ہیں جنہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں پاکستان کے سوا دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں صرف کی ہیں۔ بہر حال اب اگر وہ پہاڑ تلے آہی گئے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کب قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔ نیب عدالت نے نواز شریف اور ان کے بچوں کو بھی اپنی جائداد منتقل یا فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔ لیکن جن کی جائداد اور اثاثے ملک سے باہر ہوں ان کو کیا فرق پڑے گا۔ اس حکم کا اطلاق نواز شریف کے صاحبزدوں پر بھی نہیں ہوسکے گا جو پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں۔