گیند کبھی اس کورٹ میں اور کبھی اس کورٹ میں۔ معاملات ٹلتے رہتے ہیں۔ اگر کسی عدالت کا فیصلہ غلط قرار دیا جائے تو اس سے باز پرس تو کی جائے۔ اب اسحاق ڈار کے خلاف نیب عدالت نے ایک فیصلہ جاری کیا ہے۔ اسحاق ڈار دوسری عدالت سے رجوع کریں گے، ضمانت کروائیں گے یا مقدمہ لڑیں گے، نظر ثانی کی اپیل بھی ہوسکتی ہے۔ اس پورے عرصے میں ممکن ہے کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ کے منصب پر کام کرتے رہیں۔ عملاً تو نا اہل قرار دیے گئے وزیراعظم بھی لندن میں بیٹھ کر حکومت چلارہے ہیں اور موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ میرے وزیراعظم تو نواز شریف ہیں۔ یعنی وہ بھی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم نہیں کرتے۔ جہاں تک اثاثے ضبط کرنے کی بات ہے تو اسحاق ڈار سمیت بہت سے حکمرانوں کے اثاثے ملک سے باہر ہیں اور عموماً دبئی میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو اثاثے ضبط ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے پاس بیرون ملک اتنے اثاثے ہوتے ہیں کہ وہ تو کیا ان کی اولاد بھی عیش کرسکتی ہے۔ البتہ خود اسحاق ڈار کو سوچنا چاہیے کہ ان پر جو الزامات ہیں ان کا حتمی فیصلہ ہونے تک وہ وزارت سے مستعفی ہوجائیں اور اگر دامن صاف ہوجائے تو پھر کسی منصب پر فائز ہوجائیں۔ لیکن یہ مشورہ تو ان کے لیڈر نواز شریف نے بھی نہیں مانا ورنہ کچھ عزت رہ جاتی۔ اسحاق ڈار کو خود شرم آنی چاہیے کہ ان کی گرفتاری کے لیے پاکستان میں ان کے گھر پر چھاپے پڑرہے ہیں۔
اسحاق ڈار اگر اگلی پیشی پر بھی حاضر نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوجائیں گے لیکن ان کے لیے کسی دوسری عدالت سے ضمانت کروالینا مشکل نہیں ہوگا، بشرطیکہ وہ واپس آئیں ۔ بطور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس عرصے میں اندرونی قرضوں کے علاوہ پاکستان پر بیرونی قرضے بے تحاشا بڑھے ہیں۔ انہوں نے کشکول توڑنے کے بجائے پاکستان کو عالمی سود خوروں کے پاس گروی رکھ دیا ہے اور یہ قرضے ادا نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان کو دیوالیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے ان کی ان خدمات کے عوض کوئی عالمی سود خور ادارہ انہیں گود لے لے۔ وہ ایسے ماہر معاشیات ہیں جنہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں پاکستان کے سوا دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں صرف کی ہیں۔ بہر حال اب اگر وہ پہاڑ تلے آہی گئے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ کب قانون کی گرفت میں آتے ہیں۔ نیب عدالت نے نواز شریف اور ان کے بچوں کو بھی اپنی جائداد منتقل یا فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔ لیکن جن کی جائداد اور اثاثے ملک سے باہر ہوں ان کو کیا فرق پڑے گا۔ اس حکم کا اطلاق نواز شریف کے صاحبزدوں پر بھی نہیں ہوسکے گا جو پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں۔