بے نظیر قتل کا پنڈورا باکس

362

Edarti LOH

پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا پنڈورا باکس ایک بار پھر کھل گیا ہے اور سابق صدر پرویز مشرف کے بقول آصف زرداری نے انہیں للکارا ہے اور وہ چپ نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بے نظیر اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو آصف زرداری نے قتل کرایا۔ انہوں نے کئی ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو برسوں سے پوچھے جارہے ہیں مگر کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک بنیادی بات پرویز مشرف نے یہ کہی ہے کہ بے نظیر کے قتل کا فائدہ آصف زرداری کو ہوا، مجھے تو نقصان ہی پہنچا۔ یہ بات اس لحاظ سے اہم ہے کہ قتل کی کسی بھی واردات کی تفتیش کرنے والے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ قتل کا فائدہ کس کو پہنچا اور یہ واضح ہے کہ سارا فائدہ آصف زرداری کو پہنچا ہے۔ وہ پارٹی کے چیئرمین اور پھر ملک کے صدر بن گئے۔ بے نظیر کی زندگی میں یہ ممکن نہیں تھا۔ مرتضیٰ بھٹو اس وقت کراچی کی سڑکوں پر ماردیے گئے جب ان کی بہن وزیراعظم تھیں۔ اس قتل کا الزام زرداری ہی پر عاید کیا گیا تھا لیکن کبھی ثابت نہیں ہوسکا گو کہ ممتاز بھٹو تو اب بھی یہی الزام لگاتے ہیں۔



آصف علی زرداری 5 سال اس ملک پر حکمران رہے مگر پیپلزپارٹی حکومت میں رہ کر بھی قاتلوں کو بے نقاب نہیں کرسکی۔ کیا اس میں کوئی خطرہ تھا۔ پرویز مشرف نے بہت اہم سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب سنجیدگی سے دیا جانا چاہیے، خاص طور پر یہ سوال کہ بے نظیر کو باہر نکلنے کے لیے کون بار بار فون کررہاتھا۔ اس کی پردہ پوشی کے لیے فون ہی غائب کردیاگیا۔ بے نظیر کے ساتھ گاڑی میں موجود خالد شہنشاہ اور اس کے قاتل کو کس نے قتل کروایا ان سوالوں کے جواب میں پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ثابت ہوگیا قاتل پرویز مشرف ہیں، ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جائیں۔ یہ بحث چلتی رہے گی لیکن اصل قاتل نامعلوم ہی رہیں گے گو کہ خود آصف زرداری کہہ چکے ہیں کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں، کم از کم بے نظیر کے بچوں ہی کو بتادیں۔