چرس نوشی جرم نہیں رہے گی؟

963

zc_Nasirیہ کیسی عجیب بات ہے کہ کبھی کبھی چھوٹے لوگوں کے خیالات کی تائید بڑے اور خاص لوگ بھی کرتے ہیں۔ ہمیں یہ احساس عزت مآب جسٹس دوست محمد خان کے ایک فرمان سے ہوا۔ فرماتے ہیں۔ چرس ملنگی نشہ ہے عموماً درباروں میں دھمال ڈالنے والے استعمال کرتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ہم سالانہ چھٹیوں میں اپنے آبائی گاؤں ہر سال جایا کرتے تھے وہاں پر ایک ڈرائیور سے ملاقات ہوئی وہ بڑی خوبیوں کا مالک تھا۔ ایک حادثے میں اسے ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا اس کے باوجود وہ اپنے علاقے کا بہترین ڈرائیور تسلیم کیا جاتا تھا، اس کی شہرت سے متاثر ہو کر ہی ہم نے اس سے ملاقات کی تھی۔ دوران گفتگو کہنے لگا۔ ہیروئن کا نشہ آدمی کو بے حس، خود غرض اور بے حیا بنادیتا ہے، اس وبا سے نئی نسل کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہیروئن کا نشہ کرنے والوں اور فروخت کرنے والوں کو گولی مار دینا چاہیے۔ ہم نے کہا اگر ایسا قانون نافذ العمل ہوگیا تو ہر نشے باز کو موت کی سزا دی جائے گی۔ تمہارے ہاتھ میں اس وقت بھی چرس بھری سگریٹ موجود ہے۔ ہنس کر کہنے لگا۔ چرس درویشی نشہ ہے یہ آدمی کو امن پسند بناتا ہے، چرس پینے والا بہت معصوم ہوتا ہے اس کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ یہ خود خشک مزاج ہوتا ہے مگر جو اسے استعمال کرے اسے خوش مزاج بنادیتا ہے۔ دنگے فساد سے دور رکھتا ہے اس کا سرور آدمی کو مسرور کردیتا ہے۔



محترم جسٹس دوست محمد خان کا بیان پڑھ کر ہمیں خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ادیب اعلیٰ عطا الحق قاسمی کی عطا یاد آگئی، انہوں نے بھی چرس کی شان میں ایسی ہی قصیدہ آرائی فرمائی ہے۔ کہتے ہیں چرس نوشی امن پسند بناتی ہے، چرس نوش کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ معلوم نہیں یہ قاسمی صاحب کی بپتا ہے یا کسی کی کتھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب اور قاسمی چرس نوشی کو بے ضرر کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ چرس نوشی کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ چرس نوشی دھمال ڈالنے والوں ہی سے مختص نہیں یہ تو تعلیمی اداروں میں بھی استعمال ہونے لگی ہے۔ مذکورہ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ چرس نوشی ڈرائیور ہی نہیں کرتے اس کا استعمال تو فنکار، پروفیسر اور طالب علم بھی کرتے ہیں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ درباروں میں بھنگ نوشی بھی کی جاتی ہے، بھنگ بھی آدمی کو دین و دنیا سے غافل کردیتی ہے، گویا چرس اور بھنگ آدمی کو غفلت شعاری کا درس دیتی ہے، تعلیمی اداروں میں چرس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چرس کی حمایت میں قاسمی صاحب نے جو کالم نما مضمون لکھا تھا اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنالیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ جسٹس دوست محمد خان صاحب کی چرس دوستی اور عطا الحق قاسمی صاحب کا چرس کی شان میں لکھے کالم کا تعلیمی نصاب میں شامل ہونا کہیں قانونی حیثیت اختیار نہ کرلے۔ اگر ایسا ہوا تو بھنگ اور چرس نوشی عام ہوجائے گی۔ کسی زمانے میں افیون کی دکانیں ہوا کرتی تھیں اب چرس اور بھنگ کی دکانیں بھی بازاروں کی زینت بن جائیں گی۔