محترم جسٹس دوست محمد خان کا بیان پڑھ کر ہمیں خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ادیب اعلیٰ عطا الحق قاسمی کی عطا یاد آگئی، انہوں نے بھی چرس کی شان میں ایسی ہی قصیدہ آرائی فرمائی ہے۔ کہتے ہیں چرس نوشی امن پسند بناتی ہے، چرس نوش کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا۔ معلوم نہیں یہ قاسمی صاحب کی بپتا ہے یا کسی کی کتھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب اور قاسمی چرس نوشی کو بے ضرر کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا وہ چرس نوشی کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔ چرس نوشی دھمال ڈالنے والوں ہی سے مختص نہیں یہ تو تعلیمی اداروں میں بھی استعمال ہونے لگی ہے۔ مذکورہ ڈرائیور کا کہنا تھا کہ چرس نوشی ڈرائیور ہی نہیں کرتے اس کا استعمال تو فنکار، پروفیسر اور طالب علم بھی کرتے ہیں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ درباروں میں بھنگ نوشی بھی کی جاتی ہے، بھنگ بھی آدمی کو دین و دنیا سے غافل کردیتی ہے، گویا چرس اور بھنگ آدمی کو غفلت شعاری کا درس دیتی ہے، تعلیمی اداروں میں چرس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چرس کی حمایت میں قاسمی صاحب نے جو کالم نما مضمون لکھا تھا اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنالیا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ جسٹس دوست محمد خان صاحب کی چرس دوستی اور عطا الحق قاسمی صاحب کا چرس کی شان میں لکھے کالم کا تعلیمی نصاب میں شامل ہونا کہیں قانونی حیثیت اختیار نہ کرلے۔ اگر ایسا ہوا تو بھنگ اور چرس نوشی عام ہوجائے گی۔ کسی زمانے میں افیون کی دکانیں ہوا کرتی تھیں اب چرس اور بھنگ کی دکانیں بھی بازاروں کی زینت بن جائیں گی۔