نااہل کی پارٹی صدارت

485

Edarti LOHمنتخب ایوانوں میں آئے دن تماشے تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے سیاسی مخالف فوراً متحد ہو جاتے ہیں تاہم گزشتہ جمعہ کو پاکستان کے ایوان بالا میں نیا تماشا ہوا اور یہ بل منظور ہوگیا کہ بدعنوانی کے الزام میں عدالت عظمیٰ سے نا اہل اور غیر صادق و غیر امین قرار پانے والا شخص سیاسی جماعت کا صدر بن سکتا ہے اور پارٹی بھی وہ جو اس وقت حکمران ہے۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے اور چیئرمین بھی پیپلز پارٹی کا ہے لیکن مسلم لیگ ن نے اقلیت میں ہوتے ہوئے بھی کامیابی حاصل کرلی۔ اس بل کے ذریعے نا اہل قرار دیے گئے نوازشریف کی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار ہوگئی، اب کوئی بھی ایسا رکن پارلیمان جسے آئین کی شق 62-63 کی خلاف ورزی پر رکنیت کے لیے نا اہل قرار دیا گیا وہ پارٹی صدارت کے عہدے پر برقرار رہ سکے گا۔ اب یہ بات ن لیگ کے ارکان اور وزرا کے سوچنے کی ہے کہ کیا وہ ایک نااہل شخص کو اپنا سربراہ بنائیں گے۔ وزیر اعظم خاقان عباسی تو پہلے ہی نوازشریف کو اپنا وزیر اعظم قرار دے چکے ہیں اور انہیں ایسا ہی کہنا بھی چاہیے کہ ان کا منصب نواز شریف کا مرہون منت ہے اور اصل حکومت نواز شریف ہی لندن میں بیٹھ کر چلا رہے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت شاہد خاقان کی جگہ کسی اور کو بٹھا سکتے ہیں۔ رہے دوسرے ن لیگی رہنما تو انہوں نے ابھی سے نواز شریف کو پارٹی صدر تسلیم کرلیا ہے۔



بل منظور ہوتے ہی مشاہد اللہ خان نے بڑا زور دے کر کہا کہ نواز شریف پارٹی صدر بن سکتے نہیں بلکہ بن چکے ہیں۔ حالاں کہ اب تک یہ تھا کہ جو شخص پارلیمان کی رکنیت کے لیے اہل نہ ہو وہ کسی سیاسی جماعت کی سربراہی بھی نہیں کرسکتا۔ نا اہلی کی تلوار عمران خان پر بھی لٹک رہی ہے چنانچہ تحریک انصاف نے بھی بلواسطہ بل کی منظور میں ن لیگ کا ساتھ دیا اور اس کے 7سینیٹر مخالفت میں ووٹ دینے کے بجائے واک آؤٹ کرگئے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر نے بھی بوجوہ ن لیگ کو ووٹ دیا۔ اے این پی، جماعت اسلامی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا جو اس بل کے خلاف تھی۔ اب جناب عمران خان فرما رہے ہیں کہ ن لیگ نے الیکشن بل میں ترمیم کر کے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ پاکستان میں اخلاقیات اور سیاست ایک دوسرے کی متضاد صفات ہیں۔ لیکن عمران خان کے واویلا پر یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف کے 7سینیٹروں نے سینیٹ سے واک آؤٹ کس خوشی میں کیا اور اس طرح اخلاقیات کے جنازے کو کندھا دیا۔ عمران خان نے اپنے تئیں انکشاف کیا ہے کہ الیکشن ریفارمز بل کی شق میں ترمیم نواز شریف کا سیاسی کیریر دوبارہ شروع کرانے کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن کیا یہ کوئی انکشاف ہے ، یہ تو سب جانتے یہں۔ عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف پر جرائم ثابت ہوچکے ہیں، ان کا تعاقب جاری رکھوں گا۔ ایوان بالا میں بل کی منظوری کا فیصلہ صرف ایک ووٹ سے ہوا ہے اور یہ ووٹ نہال ہاشمی کا تھا جو خود بھی توہین عدالت کے مرتکب ہوچکے ہیں۔



اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف لندن سے کب واپس آتے ہیں اور کس حیثیت میں۔ ابھی تو وہ لندن کی ٹھنڈی فضاؤں میں بطور پارٹی صدرن لیگ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں جس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی شریک ہیں۔ چودھری نثار کو پھر نظر انداز کردیا گیا۔ جو رہنما شریک ہیں انہوں نے پہلے ہی نوازشریف کو پارٹی کا صدر تسلیم کر رکھا ہے۔ ایوان بالا میں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002ء میں ترمیم کے بعد ممکن ہے کہ نوازشریف پاکستان واپس آجائیں تب دیکھنا ہوگا کہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے ادارے کیا کرتے ہیں۔ ویسے نواز شریف کے لیے پنجاب محفوظ ترین جگہ ہے جس پر ان کے بھائی شہباز کی حکومت ہے۔ کچھ لوگ شور مچاتے رہیں گے تو مچاتے رہیں۔ انتخابات بل میں ترمیم کے بعد کوئی بھی نا اہل شخص سیاسی پارٹی کی صدارت کرسکتا ہے لیکن یہاں تو کتنے ہی نا اہل افراد پارٹی کیا بطور صدر اور وزیر اعظم ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ن لیگ اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہی اب اسے چمک کا نتیجہ قرار دیا جائے یا کچھ اور، تیر تو کمان سے نکل گیا۔



ایوان بالا میں رائے شماری کے موقع پر یہ بھی ہوا کہ اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی کے 3سینیٹروں نے بھی ن لیگ کا ساتھ دیا۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی رولنگ تسلیم نہ کیے جانے پر وہ ناراض ہو کر اجلاس چھوڑ کے اپنے چیمبر میں چلے گئے۔ مذکورہ بل کی ایک شق یہ بھی ہے کہ نا اہلی کی مدت صرف 5سال ہوگی۔ یہ جو کہا جارہا تھا کہ نواز شریف عمر بھر کے لیے نا اہل ہوگئے اب وہ 5سال بعد پھر اہل ہو جائیں گے اور 5سال گزرتے کتنی دیر لگتی ہے۔ عمران خان صاحب کو شاید معلوم ہو کہ سینیٹ میں مذکورہ بل صرف ایک ووٹ سے منظور ہوا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے 7سینیٹرز بھی اپنے ووٹ کا استعمال کرتے تو عمران خان کو اخلاقیات کا جنازہ نکلنے کی بات نہ کہنا پڑتی۔ سینیٹ میں حکومت کی زبردست لابنگ کے نتیجے میں کئی سینیٹرز غائب ہوگئے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی سربراہی کے لیے پارٹی دستور میں ترمیم بھی ضروری ہے۔ لیکن کیا یہ کام مشکل ہوگا۔