بے نظیر کا قاتل کون ؟ ۔۔۔؟

602

zr_M-Anwerیہ بات درست ہے کہ’’ قتل چھپتا نہیں ہے ‘‘ مگر یہ تاثر بھی تو غلط نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ’’قاتل یا قاتلوں کو چھپادیا جاتا ہے۔تعجب تواس وجہ سے بھی ہے کہ ملک کے پہلے وزیراعظم شہیدلیاقت علی خان اور پہلی و آخری خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹوکے قاتلوں کے بارے میں مختلف اطلاعات کے باوجود انہیں کامیابی سے پوشیدہ رکھا جارہا ہے۔یہ بھی اتفاق ہے کہ دونوں وزراء اعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کو بالترتیب 16اکتوبر 1951اور 27دسمبر2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں قتل کیا گیاتھا۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث پیپلز پارٹی مظلوم جماعت کے طور پر ابھری اور پھر 2008کے عام انتخابات میں کامیاب ہوکر وفاق اور صوبہ سندھ میں اقتدار میں آگئی۔ 2013تک اقتدار میں رہنے کے باوجود پیپلز پارٹی اور پارٹی کے رہنما و سابق صدر آصف علی زرداری، بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچانے میں ناکام رہے۔آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر 2014میں خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’ میں بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو جانتا ہوں، وقت آنے پر بتاؤں گا ‘‘ مگر اب تک انہوں نے ان کے نام نہیں بتائے اور نہ ہی قاتلوں کی گرفتاری کے لیے وہ کردار ادا کیا جو انہیں مقتولہ کے شوہر کی حیثیت سے کرنا چاہیے تھا۔



تاہم رواں ماہ کے شروع میں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنایا، جس میں 5 گرفتار ملزمان کو بری کردیا گیا تھا جبکہ سابق سٹی پولیس افسر (سی پی او) سعود عزیز اور سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) خرم شہزاد کو مجرم قرار دے کر 17، 17 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، اس کے ساتھ مرکزی ملزم سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ سرکار کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر کے تحت کی جانے والی تحقیقات کے چالان پر عدالت نے سنایا ہے۔بے نظیر بھٹو سمیت مذکورہ واقعے میں 21 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس واقعے کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے سرعام قتل کے باوجود آصف زرداری اور بے نظیر کے کسی رشتے دار و عزیز کی جانب سے مقدمہ درج نہیں کرایا گیا اور نہ ہی مقدمے میں باقاعدہ کسی کو بھی نامزد کیا۔
اس واقعے کے بعد بے نظیر کے قتل کی ذمے داری طالبان پر ڈالی گئی لیکن یہ بھی صرف سیاسی بیانات کی حد تک۔انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے اس مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے جو ان دنوں دبئی میں ہیں نے خاموشی توڑی۔ اپنے ویڈیو پیغام میں پرویز مشرف نے واضح طور پر کہا کہ ’’ میں سمجھتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو شہید کا قاتل کون ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو فیملی کی تباہی کا باعث اور مرتضی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مرڈر کا ذمے دار ایک آدمی آصف زرداری ہے‘‘۔ پرویز مشرف نے اس بیان میں خصوصی طور پر بلاول، بختاور اور آصفہ کو مخاطب کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے کوئی قتل ہوتا ہے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس قتل پر کس کو نقصان اور کس کا فائدہ ہوا، میرا تو نقصان ہی نقصان ہوا بے نظیر کے مرڈر سے، فائدہ ایک ہی آدمی کو ہوا، اور وہ مرڈرر آصف زرداری کو ہوا ‘‘۔



انہوں نے یہ بھی واضح طور پر کہا کہ ’’یہ تو حقیقت ہے کہ بیت اللہ محسود اور اس کے لوگوں نے مارا، لیکن دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ بیت محسود کے پیچھے کون ہے جس نے سازش کرکے یہ قتل کروایا ‘‘۔
گوکہ ایک سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے ایک سابق صدر آصف زرداری کو سابق وزیراعظم بے نظیر کے قتل کا ذمے دار قراردیا۔بقول پرویز مشرف کے کہ وہ یہ بیان اس لیے دینے پر مجبور ہوئے ہیں کہ ’’آصف زرداری نے میرا نام لے کر کہا کہ میں نے بے نظیر بھٹو کا قتل کیا ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ پہلی دفع میرا نام لیکر آصف زرداری نے کہا ہے یعنی مجھے للکارہ ہے یہ میری برداشت سے باہر ہے ‘‘
پرویز مشرف کے اس بیان پر قوم یہ سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور ہے کہ آخر پرویز مشرف نے اپنے دور حکمرانی کے دوران ہونے والے اس واقعے کے ذمے دار کی نشاندہی اتنی تاخیر سے یا ان پر الزام لگنے کے بعد کیوں کی ؟سوال یہ بھی ہے کہ ملک کے اہم ترین آئینی عہدے پر رہنے کے باوجود انہوں نے قتل کے ملزمان کو کن وجوہ کی بناء پر سامنے لانے سے گریز کیا ؟یہ حقیقت ہے کہ بے نظیر کے قتل پر عام افراد کا یہی کہنا تھا کہ اس قتل کے پیچھے پیپلز پارٹی کے رہنما ہی کا ہاتھ ہے۔یہ شک اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2008تا 2013 حکومت میں رہنے کے باوجود اس کیس کے حوالے سے کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کی۔ آصف زرداری کا یہ کہنا بھی قابل غور رہا کہ وہ بے نظیر کے قاتلوں کو جانتے ہیں لیکن وقت آنے پر ہی ان کا نام بتائیں گے۔اس حوالے سے بلاول سے منسوب لطائف بھی بنائے گئے۔لطیفے تخلیق کرنے والوں کے لیے پرویز مشرف کا کھل کر آصف زرداری پر الزام لگانا باعث اطمینان ہوگا۔قوم اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہوسکتی ہے کہ حساس ادارے اور عدالت عظمیٰ پرویز مشرف کے اس تازہ بیان کا ازخود نوٹس لیکر انہیں طلب بھی کرسکتے ہیں۔



پروز مشرف اور آصف زرداری کو سابق صدر کی حیثیت سے یقیناًتنخواہ، مراعات اور سہولتیں بھی سرکار کی جانب سے دی جارہیں ہوں گی باوجود اس کے کہ دونوں پر سنگین نوعیت کے الزامات ہیں۔ایسی صورت میں انہیں قانون کا سامنا کرنے کے لیے کس طرح بلایا جاسکتا ہے اہم سوال یہ بھی ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے آصف علی زرداری پر بے نظیر کے قتل میں ملوث ہونے کے سخت بیان پر بلاول زرداری کا ردعمل اب تک سامنے نہ آنے پر بھی قوم کو حیرت ہے۔ تاہم آصف زرداری کی دونوں صاحبزادیوں بختاور اور آصفہ نے اپنے ردعمل کا اظہار ٹوئٹر پیغام میں کیا ہے۔ آصفہ زرداری نے پرویز مشرف کو ’’مظلوم کو قصوروار ٹھیرانے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا کہ‘میڈیا کی جانب سے فرار ہوجانے والے قاتل کو دی جانے والی توجہ پر بیزار اور حیران ہوں‘‘جبکہ بختاور کا کہنا تھا کہ ’’مشرف بزدلوں کی طرح ملک سے بھاگ گئے اور اب گالف کورسز میں مصروف ہیں۔وہ پاکستان آئیں اور اصل عدالتوں کا سامنا کریں ‘‘۔
بے نظیر قتل پر آصف زرداری کی جانب سے پرویز مشرف پر لگائے جانے والے الزامات کو میں اللہ کا نظام سمجھتا ہوں۔میرا خیال ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کا نظام بہتر بنائے جانے کی خوش فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں اور منتخب وزیراعظم نواز شریف کو عدالت کسی بھی عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دے چکی ہے، بے نظیر کے قتل کے اصل ملزمان کا سامنے آنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ بس اہم قومی اداروں کو نیک نیتی کے ساتھ جرائم اور کرپشن میں ملوث سب کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہوگا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آئین اور قوانین کے مطابق آگے بڑھانے کا بھی یہی تقاضہ ہے۔