دنیا اس وقت شمالی کوریا سے اس کے نیوکلیئر پروگرام اور میزائل پروگرام کی وجہ سے سخت ناراض ہے اور یہ ناراضی اس وقت غصے میں تبدیل ہوگئی جب شمالی کوریا نے ایک طویل فاصلے کا میزائل فائر کیا جو جاپان کے اوپر سے ہوتا ہوا سمندر میں جاگرا۔ اس سے جنوبی کوریا اور جاپان کو اپنی سلامتی کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شدید غصے کا اظہار کیا اور اس کے فوراً بعد سفارتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا فوری طور پر اجلاس طلب کیا گیا جن میں شمالی کوریا کے اقدامات کی سخت مذمت کی گئی اور وہ ملک جو پہلے ہی مختلف پابندیوں کا شکار تھا اس پر مزید تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ جس میں ٹیکسٹائل برآمدات پر پابندی، شمالی کوریا کے مزدوروں کے روزگار کے اجازت نامے کا خاتمہ اور تیل کی ترسیل روکنا شامل ہے۔
لیکن یہ دنیا کے ضمیر کے مردہ ہونے کا بہت بڑا ثبوت ہے کہ شمالی کوریا کے میزائل فائر کرنے پر بڑی طاقتیں حرکت میں آگئیں اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلا کر پابندیاں لگادیں جب کہ عین اسی وقت برما میں بدھ مت کے دہشت گرد اور وہاں کی افواج مسلمانوں کے خلاف ظلم، وحشت اور درندگی کا طوفان برپا کیے ہوئے ہیں۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور وہ سلوک کیا گیا جس کو لکھتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے اور اس ظلم و زیادتی سے بھاگ کر تقریباً ساڑھے تین لاکھ مسلمان بنگلا دیش ہجرت کرگئے اور اس معاملے میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور اس کے مستقل اور غیر مستقل ارکان سوتے رہے۔
تو بات ہورہی تھی شمالی کوریا پر پابندیوں کی۔ ان پابندیوں کے جواب میں شمالی کوریا نے درمیانی فاصلے کا ایک اور میزائل فائر کردیا جو جاپان کی حدود سے گزرتا ہوا سمندر میں چلا گیا اور اس موقعے پر وہاں کے صدر کم جونگ نے کہا کہ ہم فوجی صلاحیت امریکا کے متوازن کرنا چاہتے ہیں تا کہ ایک خود ساختہ سپر طاقت ہم پر حملہ کرنے کا نہ سوچے۔ شمالی کوریا کی اسی حرکت پر امریکی صدر نے انتہائی غم و غصے میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسے تباہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔
شمالی کوریا براعظم ایشیا کے مشرقی حصے میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے جنوب میں جنوبی کوریا اور شمال میں چین ہے جب کہ مشرق اور مغرب میں سمندر ہے۔ آبادی ڈھائی کروڑ ہے اور مجموعی قومی پیداوار 28 ارب ڈالر ہے، جس میں کان کنی اور صنعت کا حصہ 34 فی صد، زراعت 22 فی صد اور خدمات کا شعبہ 31 فی صد ہے۔ فی کس سالانہ آمدنی 1300 ڈالر ہے جو پاکستان سے بھی کم ہے۔ صنعتوں میں سب سے اہم فوجی سازوسامان کی تیاری کے کارخانے ہیں اس کے بعد ٹیکسٹائل کا نمبر آتا ہے۔ فوڈ پروسسنگ بھی اہم صنعت ہے، معاشی نظام مکمل طور پر کمیونزم کے نظریات کے مطابق ہے تمام تر صنعتی، کاروباری اور تجارتی ادارے حکومت کے زیر انتظام ہیں، آزادانہ کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ روس اور چین شمالی کوریا کے اہم معاشی اور تجارتی شراکت دار ہیں، شمالی کوریا کے لاکھوں مزدور روس میں برسرروزگار ہیں جب کہ 75 فی صد درآمد اور برآمد میں چین پارٹنر ہے۔ اس وقت جو تجارتی پابندیاں شمالی کوریا پر لگائی گئی ہیں ان کے اثرات کا انحصار چین اور روس کے رویے پر ہے۔
آج کی دنیا میں کسی ملک کو قابو میں کرنے یا دباؤ ڈالنے کا ذریعہ تجارتی، معاشی، فضائی اور دفاعی پابندیاں ہیں۔ اس سلسلے میں امریکا یا اقوام متحدہ ایران، عراق اور لیبیا پر ان پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بعد جب ایران کے امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوئے تو امریکا نے اس پر پابندیاں عائد کردیں، اس کے بعد جب ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا اور امریکا کو اسرائیل کے لیے خطرہ محسوس ہوا تو 1995 میں امریکا نے ایران پر تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردیں جن میں تیل کی درآمد، ہوائی جہازوں کے پرزہ جات کی فراہمی اور دیگر ممالک کی وہ کمپنیاں جو ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے معاشی روابط رکھیں ان پر طرح طرح کی پابندیاں شامل تھیں۔
اس سے ایران کی تیل کی برآمد کم ہوگئی اور ہوا بازی کا شعبہ متاثر ہوا لیکن ایران کا ایٹمی پروگرام روس اور چین کی مدد سے چلتا رہا اور اس سلسلے میں روس اور چین نے امریکا کی ایک نہ سنی اور وہ برابر ایران سے تعاون کرتے رہے۔
اسی طرح جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا اور بعد میں وہ خلیج کی جنگ میں تبدیل ہوگیا اس کے بعد عراق پر اقوام متحدہ کی جانب سے تجارتی پابندیاں لگادی گئیں۔ جس کے نتیجے میں عراق میں خوراک اور دوائیوں کی قلت ہوگئی اور ہسپتالوں میں مریض دوائیوں کی قلت کے باعث مرنے لگے تو پابندیوں کو نئی شکل دے دی گئی یعنی تیل برائے خوراک۔ اب عراق کو تیل برآمد کرنے کی اجازت تھی مگر اس کے بدلے اس کو خوراک اور دوائیاں فراہم کی جاتی تھیں۔
آج کل عراق پر کوئی تجارتی یا معاشی پابندی نہیں ہے جب کہ ایران پر سخت پابندیاں لگانے کے لیے امریکا پَر تول رہا ہے۔ شمالی کوریا کا انجام کیا ہوگا یہ وقت بتائے گا۔ اصل میں دنیا کے قدرتی وسائل پر قبضے کی ہوس، دوسرے ممالک پر بالادستی کا جنون اور کمزور ممالک پر دھونس اور حاکمیت کے رویے نے دنیا کا امن شدید خطرے میں ڈال دیا ہے اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کے بعد کسی وقت بھی دنیا خدانخواستہ تباہی کا ڈھیر بن سکتی ہے۔