نسرین لئیق، نارتھ ناظم آباد ضلع وسطی
روہنگیا مسلم جنہیں دو ’’ہنجا‘‘ بھی کہا جاتا ہے میانمر (برما) کی رکھائن ریاست میں آباد ہیں۔ رکھائن کا پرانا نام ’’اراکان‘‘ ہے۔ یہ مغربی ساحلی علاقہ ہے جو خلیج بنگال کے پانی سے ملتا ہے اراکان کا یہ علاقہ تاریخی طور پر برما سے اکثر جدا رہا ہے اور یہاں راجا حکومت کرتے تھے۔
سترویں صدی تک چٹاگانگ بھی اراکان یا رکھائن کا حصہ رہا مگر اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں چٹاگانگ مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گیا اسی دور میں یہاں مسلمان آباد ہونا شروع ہوئے۔ 1826ء میں انگریزوں نے برما کو برطانوی ہند کا حصہ بنایا بعد میں برطانوی برما کی شکل میں ایک الگ صوبہ بنادیا۔ 1948ء برما کی آزادی کے بعد اراکان یا رکھائن برما کا حصہ رہا مگر پھر یہاں کے مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ چوں کہ رکھائن کا علاقہ تاریخی طور پر برما سے الگ رہا ہے اس لیے اسے ایک آزاد ملک بنایا جائے۔
1982ء میں برمی حکومت نے ایک قانون منظور کیا کہ جو لوگ 1823ء کے بعد رکھائن یا اراکان میں آکر آباد ہوئے ہیں انہیں برما کا شہری تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ یعنی جو لوگ ڈیڑھ دو سو سال سے یہاں آباد تھے انہیں ایک دم غیر ملکی قرار دے کر شہریت سے محروم کردیا گیا ان پر برما کے دوسرے علاقوں میں جانے پر پابندی عائد کردی گئی انہیں صحت، تعلیم کی سہولتوں سے جو کسی بھی آبادی کا حق ہوتا ہے محروم کردیا گیا۔
پچھلے چالیس سال سے انہیں فوجی آپریشن کا نشانہ بنایا جارہا ہے اب ان کی کوشش ہے کہ پوری مسلم آبادی کو بے دخل کردیا جائے یا مار دیا جائے، ان کے گاؤں کے گاؤں جلائے جارہے ہیں مگر نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کے کان اور آنکھیں بند ہیں۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات کے مطابق کسی جانور کو مار ڈالنا بھی انسانی قتل کے برابر قابل مذمت اور ناجائز ہوتا ہے مگر برما میں مہاتما بدھ کے پیرو کاروں نے گزشتہ چالیس سال سے مسلمانوں کے خلاف حکومتی فوج کی سرپرستی میں قتل و غارت گری اور خونریزی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
گزشتہ چند ہفتوں سے بودھ بھگشوں نے روہنگیا مسلمانوں پر جو قیامت ڈھائی ہے اس سے بچنے کے لیے سوا لاکھ مسلمان بنگلا دیش ہجرت کرچکے ہیں مگر وہاں انہیں خوراک، ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت کا سامنا ہے جب کہ بنگلا دیشی وزیراعظم ان کو اپنے ملک میں پناہ دینے کی سخت مخالف ہیں۔ اقوام متحدہ صرف مذمتی بیان دے کر خاموش ہے، عرب ممالک خاموش ہیں، مسلمان ملکوں کو اپنے باہمی اختلافات سے ہی فرصت نہیں ہے البتہ ترکی کے صدر کا کردار قابل تعریف ہے انہوں نے میانمر کی سربراہ آنگ سان سوچی کو فون کرکے برما میں جاری آپریشن کی بھرپور مذمت کی اور ترک صدر کی بیوی اور بیٹے نے بنگلادیش میں برمی مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ بھی کیا اور ترکی اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے کر جارہا ہے۔ مالدیپ، انڈونیشیا، ملائیشیا نے بھی مذمتی پیغامات ارسال کیے ہیں مگر بہتر یہ ہوتا کہ مسلمان مل کر کوئی پالیسی بناتے اور سوچی پر دباؤ ڈالتے۔ اس سلسلے میں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کو حکومتی سطح پر برما کے مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ چالیس اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کو استعمال میں لا کر برما کو سبق سکھانا چاہیے۔ جس کی قیادت راحیل شریف کے پاس ہے، صرف زبانی مذمتی قراردادوں اور عوامی احتجاج سے کام نہیں چلے گا اور نہ مسلمانوں پر ظلم و ستم رُکے گا۔۔۔!!