مضبوط اور مربوط خارجہ پالیسی اختیار کی جائے

155

سید محمود شاہ گیلانی
امریکی صدر ٹرمپ کی نئی پالیسی (بلکہ پرانی ڈومور پالیسی) نے ہمارے لیے مسائل میں اضافہ کردیا ہے۔ میرے خیال میں اب اس کا حل یہ ہے کہ مضبوط اور مربوط خارجہ پالیسی اختیار کی جائے۔ مختصراً عرض کرتا ہوں کہ:۔ دوسرے ملکوں کو دوست یا دشمن سمجھنا چھوڑ دیا جائے، ہر ملک کی پالیسی اپنے مفاد میں ہوتی ہے۔ جب اس کا کام نکل جاتا ہے تو بات ختم ہوجاتی ہے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ امریکی اور دیگر ممالک کے وفود بغیر پروٹوکول کے ہرگز حکام سے ملاقات نہ کرسکیں۔ پروٹوکول طے شدہ ہوتا ہے۔ اس سے انحراف نہیں ہونا چاہیے، امریکی نائب وزیر خارجہ کا دورہ ملتوی کروا کر مثال قائم ہوئی ہے۔ بیرونی دوروں پر پابندی عائد کی جائے، صرف بڑے مقاصد کے لیے دورے کیے جائیں۔ کسی کی بے جا حمایت یا دل آزاری نہ کی جائے اور سفارتی زبان میں بات ہو۔ کمزور سفارت کاری نے ہمارے دوستوں کو ہم سے دور کردیا ہے اور دشمنوں کی سفارت کاری نے اُن کو اپنے سے قریب کرلیا ہے۔ پچھلے ساٹھ سال میں امریکی سے سیٹو سنٹو سمیت بے شمار معاہدے ہوئے اور 1971ء میں اس کے دوغلے پن سے ہم شدید مایوسی کا شکار ہوئے۔ اکتوبر 2001ء میں ڈکٹیٹر مشرف کی غلط اور ڈرپوک پالیسی کے تحت جنگ نے ہمیں بے پناہ نقصان پہنچایا۔ اس کے باوجود ہم سے گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں۔



مشرف نے دوبار آئین توڑا اور آئین شکنی کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ چلایا گیا مگر وہ بیمار بن کر ملک سے فرار ہوگیا،اس کو واپس بلا کر مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔ ملک کے اندر اور باہر اس کی جائداد ضبط کی جائے۔ مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد، اتفاق اور یکجہتی کے لیے فضا بنائی جائے، روس اور چین سے تعلقات بڑھائے جائیں، امریکا کو خوش کرنے کے لیے شمالی کوریا اور روس کی کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنے سے روکا جارہا ہے یہ احکامات واپس لیے جائیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو عالمی پروپیگنڈے کے مقابلے کے لیے تیار کیا جائے۔ قوم کی قابل اور بہادر بیٹی عافیہ صدیقی کو واپس لایا جائے، ڈاکٹر شکیل کو امریکا کے حوالے نہ کیا جائے۔ ریمنڈ ڈیوس جاسوس قاتل کو منگوا کر پھانسی دی جائے، پاناما پیپرز میں جن 436 لوگوں کے نام آئے ہیں ان سب سے خلاف کارروائی کی جائے بلکہ نیب کو اب تک اُن کے خلاف کارروائی کرلینی چاہیے تھی۔ مشرف دور کا جاری کردہ این آر او واپس لیا جائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ جن لوگوں نے بینک کے قرض لے کر معاف کرائے ان سب کے قرض کی رقوم وصول کی جائیں اور بینکوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ پبلک کی رقم قرض دے کر کسی کے دباؤ سے قرض معاف نہ کرے۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پاکستانیوں کے 400 ارب ڈالر پڑے ہیں وہ واپس منگوائے جائیں۔ اسی طرح تمام سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک بھی قائم کیے جائیں اور کشمیر کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال دنیا کو بتائی جائے۔
طلبہ تنظیموں پر ناروا پابندی جلد اٹھائی جائے تا کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ میں احساس ذمے داری پیدا کیا جاسکے۔ مزدور تنظیموں پر بھی جو پابندیاں ہیں انہیں ختم کیا جائے تا کہ صنعتی امن قائم ہو اور ملک میں ترقی کا دور دورہ ہو۔