ویلفیئر اسکیموں کی تقریبات میں مزدوررہنماؤں سے تقریر نہ کرانا نئی روایت ہے 

372

قموس گل خٹک
حکومتی سرپرستی میں منعقدہ سہ فریقی ویلفیئر اسکیموں کی تقریبات میں ایک نئی حکومتی روایت سامنے آگئی ہے کہ ان تقریبات میں ویلفیئر اسکیموں کے انچارج بیورو کریٹ متعلقہ وزیر کو اپنی کارکردگی بتانے کے لیے خود ہی مزدور نمائندے بن کراپنی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور ہرمعاملے پر کہہ دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ پہلے ہی منسٹر صاحب نے منظور کر لیا ہے۔ ان تقریبات میں شریک مزدور اور ان کے رہنما یہ اعلانات سن کر حیرت زدہ بیٹھے رہتے ہیں۔ ڈسپلن اور اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان یکطرفہ اعلانات کی وضاحت نہیں مانگتے تاکہ تقریب میں شریک مہمان خصوصی محسوس نہ کریں کہ مزدور لیڈر معززین اور مہمانوں کا احترام کرنا بھی نہیں جانتے ۔ کراچی میں ورکرز ماڈل اسکولوں کے اچھے نمبرز سے پاس ہونیوالے طالب علموں کو ٹرافی اور انعامات دینے کی تقریب میں وزیر محنت مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے اور مجھے بھی شرکت کی دعوت تھی ۔ مگر اس تقریب میں بھی کسی مزدور لیڈر کو اسکولوں کے معاملات اور دشواریوں کی نشاندہی کرنے اور انہیں بہتر بنانے کیلئے تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی حالانکہ کوئی بھی مزدور رہنما منعقدہ تقریب کے ماحول اور ڈسپلن کو ہر گز خراب نہیں کرتا مگر ان اسکولوں میں پڑھنے والے مزدوروں کے بچوں کو درپیش مشکلات اور مسائل پر روشنی ضرور ڈالتا ۔جیساکہ تقریب میں دعویٰ کیا گیا کہ اسکولوں کے طالب علموں کو کتابیں یونیفارم وغیرہ فراہم کی گئی تو مسائل سے واقف مزدور لیڈر یہاں یہ ضرور کہتا کہ اسکولوں کے طلباء کو مطلوبہ اور طے شدہ سہولیات کی فراہمی پر شکریہ مگر گزشتہ تین سال بجٹ میں مطلوبہ رقم ہوتے ہوئے صرف کمیشن کے تنازعے پر ان اسکولوں کے طالبعلموں کو کتابیں یونیفارم کی عدم فراہمی کا ذمہ دار کون تھا ؟ اور اس کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے وہ یہ بھی سوال اٹھاتا کہ تین سال سے اسکول کے بچوں نے ٹوٹی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر جو اذیت اٹھائی اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ اسی طرح کی تقریب حیدرآباد میں بھی منعقد کرائی گئی ۔ جس میں سیکرٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ نے خود اس ادارے کی کارکردگی کی تعریف کی اگر کوئی مزدور لیڈر یہ کہتا کہ بورڈ کے حالات پہلے سے قدرے بہتر ہوگئے ہیں اور ویلفیئر اسکیموں سے مزدوروں کو مراعات ملنا شروع ہوئے ہیں



مگر 2011کے ڈیتھ گرانٹ کے کلیم ابھی تک Pendingپڑے ہیں اور اس وقت تقریباً ساڑھے چھ سو کے قریب ڈیتھ گرانٹ کے کلیم پر کوئی موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہونیوالے محنت کشوں کے وارث خصوصاً بیوائیں اذیت ناک انتظار کررہے ہیں کہ کب انہیں مرحومین کے ڈیتھ گرانٹ مل سکیں۔ اگر چہ موجودہ سیکرٹری بورڈ کے آنے کے بعد کچھ سلسلہ شروع کیا گیا ہے مگر یہ ناکافی ہے اور تسلی بخش نہیں کہلایا جاسکتا کیونکہ سب سے زیادہ حساس معاملہ ڈیتھ گرانٹ کا ہے۔ یہ بھی مزدور جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں یہی ڈیتھ گرانٹ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں مل جاتی تھی جواب سالہا سال گزرنے کے باوجود نہیں ملتی جبکہ یہ فنڈ کارخانوں کے مالکان مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے فراہم کرتے ہیں اس میں ایک روپیہ بھی حکومت کا میچنگ گرانٹ شامل نہیں ہے مگر اس کے باوجود صنعت کاروں کے فراہم کردہ فنڈ پر حکومتی قبضہ ہے اور اس فنڈ سے کبھی کبھار حکومتی مہربانی سے مزدوروں کو برائے نام سہولیات مل جاتی ہیں ۔کیا جمہوریت اور جمہوری اداروں کیلئے یہ بہتر ہے کہ اس ملک کے محنت کش شفاف مراعات اور سہولیات کے لیے گزشتہ آمرانہ دور کو یاد رکھیں؟ لیکن حقائق کو صرف عملی کارکردگی سے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے، اخباری اشتہارات یا تقریبات میں مزدور دوستی کے بلند و بانگ دعووں سے تاریخ میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی اگر ایسا ہوتا تو محترم عمران خان کے دعووں سے نیا پاکستان K.P.K میں ابتک وجود میں آگیا ہوتا؟ مزدور طبقہ ویلفیئر اداروں سے مراعات کے سلسلے میں آمرانہ دور کو کیوں یاد رکھتے ہیں اس لیے کہ اس دور میں ان اداروں کے معاملات میں سیاسی مداخلت نہیں تھی اور سیاسی مداخلت کے بغیر بیورو کریٹ مزدوروں کو سہولیات دینے میں ٹال مٹول نہیں کرتے ۔ یہ ہماری زندگی کا تجربہ ہے اور سیاسی حکومتوں کے ادوار میں نہ صرف ان اداروں کے معاملات میں کھلی مداخلت کی جاتی ہے بلکہ ان اداروں کے سہ فریقی بورڈ یا گورننگ باڈی میں اپنی جماعتوں سے وابستہ ایسے افراد کو بھی نامزد کیا جاتا ہے جو کبھی مزور لیڈر ہی نہیں رہے مگر راتوں رات انہیں کسی فیڈریشن کا لیڈر بنا کر بورڈ یا گورننگ باڈی میں ممبر نامزد کردیا جاتا ہے پھر مزدوروں کے نمائندے کے طورپر نامزد ایسے افراد سے کون توقع رکھے گا کہ وہ حکومتی احسانات کو پس پشت ڈال کر سرکاری ایجنڈے پر ہاں نہ بولے جس کے لیے انہیں نامزد کیاگیا ہے۔



سندھ میں حالیہ سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن اور منیمم ویجیز بورڈ کی تشکیل اس سلسلے کی بدترین مثال ہے جس سے ملکی سطح پر پورے صوبے کی توہین ہوتی ہے آخر حکمرانوں کے وہ کونسے مفادات ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے وہ ان ویلفیئر کے اداروں میں بھی مستند لیبر لیڈر کو نامزد کرنے کے بجائے ایسے افراد کو نامزد کررہی ہے کہ جن کا زندگی میں مزدور طبقے کی جدوجہد اور ٹریڈ یونین سے عملی تعلق نہ رہاہو، اگر ان اداروں میں نمائندگی کا عالم یہ ہو تو پھر قوم ان قائدین اور حکمرانوں سے یہ کیسی توقع رکھے گی کہ وہ صوبائی اور وفاقی سطح کے اداروں کے لیے بھی میرٹ پر صحیح نمائندوں کو نامزد کریں گے۔ میری کوشش اور آصف میمن سیکرٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کی مہربانی سے حیدرآباد ریجن کے کارکنان کو ان کے زیر تعلیم بچوں کے اسکالر شپ عید سے پہلے بتاریخ28اگست 2017کو دینے کیلئے انڈس ہوٹل حیدرآباد میں پروقار تقریب منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی ناصر حسین شاہ وزیر محنت ٹرانسپورٹ اطلاعات اور مذہبی امور تھے ۔میں نے مزدوروں کی جانب سے شاہ، سکندر شورو، منسٹر مائینس اینڈ ٹیکنالوجی سندھ ، سیکرٹری لیبر سندھ ، رشید سولنگی، آصف میمن کا پرتباک استقبال کیا ۔ انہیں پھولوں کے ہار پہنائے اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی لیکن اس تقریب میں بھی یہ نئی روایت دہرائی گئی کہ کسی مزدور رہنما کو تقریر کا موقع نہیں دیا گیا بلکہ خود اپنی کارکردگی کی تعریف اور مزدوروں کے تمام مسائل کو پہلے ہی حل کرنے کے دعوے سنائے گئے جبکہ وزیر محنت نے کوٹری میں کارخانے داروں کی تنظیم KATIکی دعوت میں شرکت پر ویلفیئر اسکیموں کے سلسلے میں مالکان کی تجاویز کا بار بار ذکر کیا مگر مزدوروں کیلئے ویلفیئر اسکیموں پر مزدور رہنماؤں کی جانب سے تجاویز پیش کرنے کو ضروری نہ سمجھا گیا۔ اس نئی روایت سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب مستقبل میں سہ فریقی اسکیموں کے معاملات میں مزدور رہنماؤں کا کردار ختم کیا جارہا ہے ۔ شاید حکمران اور ان کے مقرر کردہ بیورو کریٹ اس کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ اس لیے ان اداروں کے بورڈ یا گورننگ باڈی میں ایسے افراد کو مزدور نمائندوں کے نام پر نامزد کرنے کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے جو بورڈ/ گورننگ باڈی کے اجلاس پر ملنے والے الاؤنس پر ہی خوش ہوں اور سرکاری ایجنڈے پر بحث کے دوران ہاں میں ہاں ملانے کا فرض پورا کریں۔ لیکن کیا ایسی کارروائیوں سے حقائق تبدیل ہونگے یا مزدور طبقے کو مطمئن کیا جاسکے گا



جبکہ پانچ سال سے ڈیتھ گرانٹ جہیز گرانٹ، اسکالر شپ اور سیونگ مشینوں کی اسکیمیں عملاً بند ہیں اور سوشل سیکورٹی کے ہسپتالوں میں مزدوروں کو فراہم کردہ ادویات کی کوالٹی متنازعہ اور اس ادارے میں کرپشن کا دور دورہ ہے۔ اگر کوئی ثبوت کے ساتھ کرپشن کی نشاندہی کرتا ہے تو ایسے کاغذات کو ردی کی ٹھوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہی صورتحال بڑھاپا ، معذور اور بیوہ پنشن کے ادارے ای او بی آئی کا ہے کہ مسلسل اس ادارے کے سربراہان یکطرفہ ایسے احکامات جاری کررہے ہیں کہ ان احکامات کے بعد ریٹائرڈ معذور اور فوت ہونیوالے مزدوروں کی پنشن ناممکن بنتی جارہی ہے اس سلسلے میں ہم نے آٹھ فیڈریشنوں پر مشتمل وفد کے ساتھ چیئرمین ای او بی آئی سے ملاقات کی اور انہیں نئے جاری کردہ ہدایات کے منفی اثرات اور مزدوروں میں بے چینی سے آگاہ کیا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ عقل مند اور بااختیار بیوروکریٹ اس ملک میں کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے وہ یہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جو ان کو اچھا اور بہتر لگے اسی پر عمل کرے ۔ حالانکہ ای او بی آئی میں بورڈ آف ٹرسٹی (BOT)موجود ہیں جس میں چار مزدور نمائندے بھی شامل ہیں مگر ان اہم تبدیلیوں پر ان کی رائے لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا یہ تو ہمارے ملک کے ویلفیئر اداروں کا حال ہے جس کو مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے فنڈ صرف صنعت کار فراہم کرتے ہیں صوبائی یا وفاقی حکومت کی کوئی میچنگ گرانٹ شامل نہیں ہے مگر یہ فنڈ عملاً مزدوروں کی فلاح وبہبود سے زیادہ افسران کی تنخواہوں اور عیاشیوں پر خرچ ہورہے ہیں۔ ویلفیئر کے تمام اداروں میں حکمرانوں نے اپنے حامیوں کو لگارکھا ہے اس لیے ان کے خلاف کسی شکایت پر کوئی کارروائی کرنے کوتیار نہیں اور نہ احتسابی ادارے اعلیٰ حکام کی بدعنوانیوں کا نوٹس لیتے ہیں۔ وہ تو چھوٹے افسروں ، کلرکوں اور اعلیٰ حکام کے دباؤ میں آکر دستخط کرنیوالوں کو پکڑ کراپنی کارکردگی دکھاتے ہیں جیساکہ ای او بی آئی میں کئی ایماندار افسران کے ساتھ بھی ہوا ہے ۔ ان تمام مسائل، بے ضابطگیوں اور کرپشن کو ختم کرانے کا حل ٹریڈ یونین تحریک کے استحکام اور ملکی سطح پر ایسے اتحاد میں ہے جو کم از کم ملکی سطح پر مزدور تحریک کو درپیش مسائل و مشکلات کو حل کرانے پر متفق ہو کر جدوجہد کریں۔ پاکستان ورکرز کنفیڈریشن ایسے اتحاد اور جدوجہد کی میزبانی اور مالی تعاون کے لیے تیار رہے گی۔