مردِ مجاہد۔ رہبر اعلیٰ

234

دین اسلام کی حرمت کو بچانے کے لیے
دینِ برحق کو زمانے میں فروزاں کرنے
ہندی مسلم تھا جو اوہام کا بدعت کا اسیر
خود کو اسلام کے قالب میں یوں اس نے ڈھالا
صالح کردار کے لوگوں کی جمعیت لے کر
اس کا پیغام تھا اسلام بنے نظمِ حیات
دشمنوں کو دیا دندان شکن اس نے جواب
اس نے ہجرت بھی کی تو دین کی چاہت کے لیے
پرچم اسلام کا اس طرح اٹھایا اس نے
دین اسلام کی تحریک کو خوں سے سینچا
اس کے افکار نے کردار نے دنیا بدلی
عمر بھر سہتا رہا ظلم و ستم ہنس ہنس کر
ظرف ایسا کہ سمندر بھی کرے رشک اس پر
ظلمتِ شب میں نئی روشنی لانے کے لیے
گھپ اندھیرے میں وہ نکلا تھا چراغاں کرنے
کفر و الحاد کا مخزن ہی تھا انساں کا ضمیر
شخصیت ہوگئی مسلم کی بلند و بالا
وہ اٹھا سنّت و قرآن کی دعوت لے کر
کفر و الحاد ہو نابود، ملے حق کو ثبات
اس کا محبوب حَکَم تھا فقط اللہ کی کتاب
رات دن ایک کیے دیں کی اقامت کے لیے
تختہ دار پہ بھی سر نہ جھکایا اس نے
خم کیا جبر کے آگے نہ کبھی سر اپنا
یوسفی لہر اٹھی، روحِ زلیخا بدلی
اپنی پلکوں ہی سے ہی چنتا رہا کانٹے اکثر
حسنِ اخلاق میں بے مثل تھا خاکی پیکر