یہ تھے مودودی ؒ یہ صاحب سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے !

745

لیاقت بلوچ
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
جنہیں عرف عام میں سید مودودی ؒ یا مولانا مودودی کہا جاتاہے۔ سیدمودودی ؒ اسلام کے مذہبی اخلاقی، معاشی ، معاشرتی اور سیاسی پہلوئوں پر لا تعداد تحریروں ، مضامین ، مقالہ جات اور سو سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ مولانا مودودی ؒقرآن ، حدیث ، فقہ کے ساتھ ساتھ عمرانی مسائل ، فلسفہ ، اسلامی تاریخ ، تفسیر قرآن ، معاشیات اور علم سیاسیات کے متبحر عالم تھے ،انہوںنے اپنی دل آویز شخصیت ، دل نشیں طرز انشاء اور دل کش اسلوب تحریر سے مسلمانوں کو اُن کا بھولا ہوا سبق سکھایا یا د دلایا ، لااکھوں مسلمانوں کو اپنی حرارت ایمانی پر مبنی تحریروں اور خطابت سے گرما دیا اور اُن کے دلوں میں حقیقی نصب العین ، حکومت الٰہیہ کے قیام اور تعمیر ، اصلاً رضائے الٰہی اور نجات اُخروی کے حصول کی تڑپ پیدا کردی ۔ مولانا مودودی ؒ ہی ہیں جو موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں اسلام کے اجتماعی نظام ، تعمیر ریاست اسلامی اور اتحاد عالم اسلامی کی علامت ہیں۔
یہ نوجوان سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ تھے !

دہلی کی عظیم جامع مسجد میں ہزاروں مسلمانوں کا عظیم اجتماع تھا۔ مولانا محمدعلی جوہر ؒکی خطابت کے جوہر سے مجمع مسحور ہوچکاتھا ۔ وہ ہمیشہ سامعین کو ملی جذبات سے مسرور ،تعلیم ،ترغیب سے متاثر اور حریت فکر وآزادی کے ولولہ سے سرشار کردیتے۔ دہلی کی جامع مسجد میں خطاب ایسے موقع پر تھاکہ 1926ء میں آریہ سماج کے لیڈر سوامی شردھانند کو قتل کردیا گیا، یہ شخص مسلمانوں کو ہندو بنانے کی شدھی تحریک کا بانی تھا، اس نے اپنی کتاب میں نبی کریم ﷺپر ناروا حملے کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔ عبدالرشید نامی مسلمان نے غیر ت ایمانی کے جوش میں آکر اسے قتل کردیاتھا۔ اس کے قتل کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہنگامہ خیز مقدمہ شروع ہوگیا۔ ہندو مہاسبھائیوں ، کانگرسیوں اور سب ہندوئوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ،ہندو پریس اخبارات اور رسائل نے ملک گیر طوفان کھڑا کردیا ، نظریہ جہاد کو خصوصاً اور اسلام کی تعلیمات کو عموماً ہدف طعن و تنقید بنالیا کہ اسلام عقل و دلیل کا مذہب نہیں یہ جنگ ، عربوں کے غیر متمدن بدوئوں اور ایسے فرغذاروں کا مذہب ہے جو زبردستی کلمہ پڑھوا کر لوگوں کو مسلمان بناتے ہیں اور اسلام کی تعلیم نے انہیں متعصب بنادیا ہے کہ وہ ہر کافر کو گردن زدنی جانتے ہیں اور اسے قتل کرکے جنت میں جانے کی اُمید رکھتے ہیں۔ ہندو پریس نے شور مچادیاتھا کہ اسلام سیرت وکردار کی خوبی کے زور کی بجائے تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور آج بھی مسلمان تلوار کے زور سے ہی اغیار کو رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس موقع پر جامع مسجد دہلی کی خطابت میں مولانامحمدعلی جوہر ؒ نے بہت پُر سوز ،بڑی رقت و حسرت اور دل گدازی سے مسلمانوں سے رُندھی ہوئی آواز میں کہاکاش کوئی اللہ کابندہ ہندوئوں کے ان الزامات کے جواب میں اسلام کا صحیح نقطۂ نظر پیش کرے ،دلیل سے ان کا منہ توڑ جواب دے ۔ یہ پکار اس مرد مجاہد کی تھی جس کی سیرت و صورت مسلمانوں کے قائدین سلف کی یاد گار تھی۔
دہلی کی اس عظیم جامع مسجد میں عظیم خطاب سے جہاں ہزاروں کامجمع مسحور ہوا وہیں ایک نوجوان نے مولانا جوہر ؒ کی بات کو گرہ میں باندھ لیا اور فیصلہ کر لیا کہ وہ اس کام کا بیڑہ اٹھائیں گے۔ پھر الجہاد فی الاسلام کے نام سے سلسلہ مقالات شروع کیا ، یہ معرکۃ الآراء کتاب الجہاد فی الاسلام کے نام سے پوری دنیا میں متعارف ہوئی …یہ نوجوان سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے ۔ مغربی نقادوں نے اس کتاب کو ہٹلر کی کتاب ’’میری جدوجہد ‘‘ سے تشبیہ دیا اور خبرد ار کیاکہ سید مودودی ؒکی تسلیم شدہ صالحیت بھی شدیدخطرے کا باعث ہے ، مغربی نقادوں نے خبرد ار کرتے ہوئے کہا کہ ، یہ کافرہندی ہے ، بے تیغ انسان خونریزی اور جماعت اسلامی کے خلاف طعن و تشنیع ، مخالفانہ تحریروں ،تجزئیوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کردیا جو آج تک جاری ہے۔
سید مودودی ؒ کے طرز تعلیم ،طرز بیان اور اسلوب تحریر کے اثرات :

مولانا مودودی ؒ ،اپنی خطابت ،تحریروں میں فقہی مسائل بیان کرنے کی بجائے اسلام کی مبادیات او ران کے انقلابی رخ و کردار اور انسانی زندگی کی معاشرتی ، سیاسی اور اخلاقی پہلوئوں سے تعلق رکھنے والی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نئی نسل کے فکر و ذہن کو منور کرتے ۔ جب اسلامیہ کالج میں سیدمودودی ؒ نے ستمبر 1939ء سے لیکچر ز کا سلسلہ شروع کیا (اعزازی پروفیسر ) تو شاگردوں کے الفاظ تھے کہ ’’اسلامیات کے باغ میں یک لخت بہار آگئی اور اس کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوگیا ، سید احمد سعید کرمانی کے الفاظ میں ایک بار کوئی طالب علم لیکچر سن لیتا تو دوسرے پیریڈ اس پر بوجھ بن جاتے۔ دوسرے شاگردوں کا کہناتھاکہ مولانا محترم کے درس کااندازبھی نرالاتھا ، سادہ کاغذ پر چند عنوان لکھ کر لاتے تھے۔اور ایک ایک کی تشریح فرماتے جاتے ، سوالات کے لیے صلائے عام ہوتا، بہت ہی اطمینان بخش جواب ہوتے پوری محفل بہت ہی دلچسپ ہوتی ۔ اس درس و تدریس سے نوجوانوں کو پہلی بار پتہ چلاکہ اسلام بے روح مذہبیت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل اور شاندار نظام حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی دیتاہے ۔ مولانا مودودی ؒ کی یہ کوششیں یقیناً انقلاب انگیز کام تھا جس نے نوجوان نسل کے ذہن ہی نہیں بدلے بلکہ اُن کی زندگی کے طور اطوار بھی بدل ڈالے۔ سید مودودی ؒ ہمیشہ زور استدلال سے ہندوستان کی سیاست اور قومیت کے مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اسلام کے نظریۂ سیاست کی نشاندہی کرچکے تھے۔ لیکن اکتوبر 1939ء میں سید مودودی ؒ نے مسجد شاہ چراغ لاہور میں منعقد ہونے والے برادر ہڈ اجلاس میں مشہور مقالہ ’’اسلام کانظریہ سیاسی پڑھا ۔ ‘‘ اس مقالہ کو ہر طرف سے پذیرائی ملی اور مقبول عام ہوا ، اس کا چرچا خوشبو کی طرح ہر طرف پھیل گیا۔
ایم اے او کالج امرتسر کی درخواست پر سید مودودی ؒ نے 26نومبر 1939ء کو’’اسلام کانظریہ سیاسی ‘‘ مقالہ کالج کے غلام حسن ہال میں پیش کیا ، کالج کا ہال اساتذہ ، حاضر اور سابق طلبہ ، دانش ور اور معززین شہر سے بھرا ہواتھا ، اس مقالہ نے ہر ایک کو متاثر کیا اور اس کی فکر انگیزی نے ایسا ماحول کردیا کہ طویل مقالہ ہر ایک کے ذہن کو قبولیت پر آمادہ کرتا جاتا، ایسے محسوس ہوتا کہ دانائے راز طالب علموں اور تعلیم یافتہ حضرات کو انگلی پکڑ کر راستہ دکھاتا جارہاہے۔ یہ وہ دور تھا جب نظریۂ پاکستان روز بروز وسعت پکڑ رہاتھا۔ اور مسلمان نوجوانوں میں ایک جداگانہ ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ اس کی اسلامی شناخت کی باتیں ہونے لگی تھیں ایسے عالم میں سید مودودی ؒ کا مقالہ اسلام کانظریہ سیاسی خود مسلم لیگی حضرات کے بقول پاکستان جانے والی سیدھی راہ دکھاتاتھا۔ سید مودودی ؒ نے انفرادی ، اجتماعی اور اسلامی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے مسلسل اپنی تحریر ، فکر سے آبیاری کی ،اسی وجہ سے آج بھی لبرل ، سیکولر مادرپدر آزادی ،اباہیت اور مفاد پرستی کے طوفان میں اسلامی نظریہ سیاست اور اسلامی تہذیب ومعاشرت کا چراغ ہر سو روشنی پھیلا رہاہے ،نشان منزل کو غائب نہیں ہونے دے رہا۔ عزم اور ولولوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے کہ انسانوں کی بقا اور انسانی اقدار کا احیا ء اسلام کے عالمگیر اور مکمل نظام حیات میں ہی ہے۔

سید مودودی ؒ کی فکر ، جدوجہد ،تنظیم سازی اور دعوت کی تین بنیادیں:
سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کے کام کو تین عنوانات میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
۱۔اسلامی حکومت کے بنیادی نظریے اور اس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا تاکہ جس چیز کی طلب اُن کے اندر پیداہوگئی ہے ا س کی نوعیت سے وہ خوب اچھی طرح آشنا ہوجائیں کہ کوئی قیادت کل کسی وقت کوئی مذہبی کھلونا دے کر انہیں اس دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ وہ جو کچھ چاہتے تھے وہ انہیں حاصل ہوگیا ۔
۲۔تہذیب اسلامی کی مبہم سی خواہشیں جو مسلمانوں کے اندر اُبھری ہیں اس کے بارے میں انہیں پوری وضاحت سے بتایا جائے کہ اسلامی تہذیب کیا شے ہے ،اس میں اور دوسری تہذیبوں میں کیا بنیادی فرق ہے۔ اس تہذیب کے احیاء اور بقا کے لیے ایک حقیقی اسلامی نظام حکومت کا قیام کیا اہمیت رکھتاہے ، اسلامی حکومت اور جاہلی حکومت میںکیا فرق ہے اور مسلمانوں کی جاہلی حکومت اسلامی نظام حکومت کے راستے میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے۔
۳۔مسلم قوم پرستی اور اسلام کے نام پر کام کرنے والے افکاراور تحریکوںکا تجزیہ کرکے یہ واضح کیا کہ اسلامی نظام زندگی کااحیاء اور قیام کس قسم کی تحریک کے ذریعے ہوسکتاہے جو تحریکیں مسلمانوں کے اندر اس وقت کام کررہی ہیں ، وہ کس بناء پر اس نصب العین تک پہنچنے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔
جماعت اسلامی کا قیام اور واضح اہداف :

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے احیائے اسلام ، اسلامی ریاست اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جو فکر اور تحریر عام کی اس نے لاتعداد ذہنوں کو متاثر کردیاتھا ۔ انسان اور انسانیت کسمپرسی سے دوچار تھی ، مفاد پرست سیاسی نظام ، استعمار ی نظام، انسانوں کو غلام بنائے ہوئے ہے۔ برصغیر خصوصاً پاکستان میں انسانوں کو منظم کرنے اور انقلابی سیاسی ،آئینی جدوجہد کے لیے متحرک کرنے کی خاطر ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی گئی اور دعوت کی یہ بنیاد رکھی کہ !
۔اپنی پوری زندگی میں اللہ کی بندگی اور محمدرسول اللہ ﷺکی پیروی اختیار کی جائے۔
۔ دور رنگی اور منافقت چھوڑ دو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسری بندگیاں جمع نہ کی جائیں۔
۔خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کو دنیا کی راہ نمائی اور فرماں روائی کے منصب سے ہٹا دو اور زمام کار مؤمنین ،صالحین کے ہاتھ میں دو تاکہ زندگی کی گاڑی ٹھیک اللہ کی بندگی کے راستے پر چل سکے۔
۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے قیادت اور نظام کی تبدیلی کے لیے دستور جماعت اسلامی میں مستقل طریقہ کار طے کردیا جس پر آج تک جماعت سلامی کاربند ہے اور الحمدللہ مسلسل جدوجہد جاری ہے ۔
۱۔جماعت اسلامی کوئی فیصلہ کرنے اور قدم اٹھانے سے پہلے دیکھے گی کہ اللہ اور رسول ؐ کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی۔ جہاں تک اسلام میں گنجائش ہوگی۔
۲۔اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت اسلامی کبھی ایسے ذرائع اور طریقے استعمال یا اختیار نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہو یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳۔ جماعت اپنے پیش نظر اصلاح وانقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ وتلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے گی اور رائے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیاجائے گا جو جماعت کے پیش نظر ہیں ۔
۴۔جماعت اسلامی اپنے مقاصد اورنصب العین کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد کو خفیہ تحریکوں یازیرزمین تحریکوں کے طرز پرنہیں بلکہ کھلم کھلا اور اعلانیہ کرے گی۔
مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ استقامت کے پہاڑ تھے ، وہ شمع محفل تھے جس کی روشنی اور نور شفقت سب پر برابر پڑتی تھی ، وہ نہایت حلیم ، خوش طبع اور ذہنوں کو متاثر کرنے والے ملائم اور مدلل بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ، اُن کی تحریروں ،فکر اور تفسیر قرآن کریم …تفہیم القرآن نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا اُن کی وفات کو 36سال بیت گئے لیکن اُن کی فکر ،تحریک، تحریر یں زندہ ہیں اور ان شاء اللہ زندہ رہیں گی اس لیے کہ اُن کی فکر قرآن و سنت سے جڑی ہوئی ہے۔
دنیا بھر میں مستقبل مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کی فکر اور امام حسن البناء شہید ؒ کی فکر کا ہے۔ عالم کفر اور استعماری قوتیں سیکولرازم ، لبرل ازم اور مغربی سرمایہ دارانہ طاقت سے پیش قدمی روکنا چاہتے ہیں لیکن ناکام ہوں گے۔