مشرقِ وسطیٰ عجیب خطہ رہا ہے۔ راتوں رات سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں دوستی دائمی ہے نہ دشمنی۔ مشرقِ وسطیٰ میں غداری کی کوئی حد ہے نہ دھوکا دہی و نفرت کرنے کی۔ خطے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ریاستیں فرمائش اور حکم کے تحت کام کرتی ہیں۔ کبھی پڑوس میں محاذ بنتا ہے تو کبھی گھر آنگن میں اور کبھی اپنے ہی باشندے محاذ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کردیا جاتا ہے اور انہیں یہ یقین بھی دلا دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کےل یے اور اس کے حق میں ہے۔ تیل اور گیس سے حاصل ہونے والی دولت سے بھرپور سیاسی قوت حاصل کرنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس کھیل کے کھیلنے والوں کی نظر میں خطے کا وقار کوئی مفہوم نہیں رکھتا، وہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ وسائل اگر برباد ہوتے ہوں تو ہوں۔ اس خطے کے لوگ عجیب ذہنیت کے حامل ہیں کہ اپنی بربادی کا سامان کرنے والوں کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔
اس سے زیادہ دُکھ کی بات کیا ہوگی کہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں بھی کہ جب ہر طرف شعور کا غلغلہ ہے، مشرقِ وسطیٰ میں سب کچھ امریکا اور برطانیہ کی مرضی اور حکم کے مطابق ہی ہو رہا ہے۔ ہر معاملے میں فیصلہ کن اختیار اب بھی مغربی قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ خطے کے لوگ محض غلام ہوکر رہ گئے ہیں۔ حکمرانوں کے نام پر مغربی طاقتوں نے منتظمین متعین کر رکھے ہیں، جو اپنے آقاوں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ آزادی دکھائی دیتی ہے مگر ہے کہاں؟ جہاں سوچ ہی غلام ہو وہاں کیسی آزادی؟ یہ خطہ اب بھی حملوں کی آماجگاہ ہے۔ مختلف حوالوں سے قائم شناخت کی بنیاد پر اس خطے کی ریاستوں اور عوام کو ایک دوسرے کے مقابل لایا جارہا ہے۔ عراق، لیبیا، شام، یمن سب ایک ایک کرکے منقسم اوربربادہوتے جارہے ہیں۔ ریاستیں مختلف بنیادوں پر تقسیم ہوتی جارہی ہیں۔ سرد جنگ کے بعد سے یہی اسکرپٹ کام کر رہا ہے۔ ریاستوں پر حملے کیے اور کرائے جارہے ہیں، خانہ جنگی کا بازار گرم کیا جارہا ہے اور ریاستوں کو دہشت گرد تنظیموں کے چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے۔
تواتر سے پیدا کی گئی خرابیاں یہ بہت سوں کا مقدر ہو چکی ہیں اور مزید بہت سوں کا مقدر ہوں گی۔ سوال یہ بھی نہیں رہا کہ کون امریکا کا دوست ہے اور کون دوست نہیں ہے۔ ایجنڈا سب کے لیے ہے۔ امریکا کے دشمن ہی نہیں، دوست بھی ہار رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے ہم خیال مغربی ممالک پورے مشرقِ وسطیٰ کو تنکوں کی طرح بکھیر دینا چاہتے ہیں۔ یہ عمل بہت تیزی سے جاری ہے۔ وہ دن زیادہ دور نہیں لگتا جب یہ پورا خطہ خدا نخواستہ شہری ریاستوں میں تبدیل ہوچکا ہوگا۔
شام میں معاملات کو نمٹانے کے بعد قطر کی باری آنی تھی مگر یہ تو بہت پہلے ہی ہوگیا۔ ٹرمپ کے پہلے دورہ ٔسعودی عرب نے کام کر دکھایا۔ سعودی حکمرانوں سے ملاقاتوں میں خطے کے نئے محاذ کا تعین ہوگیا۔ اور یوں قطر کو غدار قرار دے کر الگ کردیا گیا۔ ابھی قطر کا معاملہ شروع ہی ہوا تھا کہ ایران کی پارلیمان اور خمینی کے مزار پر حملے کرا دیے گئے۔ یہ حملے داعش کے ذریعے کرائے گئے ، جو اب تک ایران اور اسرائیل پر حملوں سے اجتناب کرتی رہی ہے۔ ان حملوں کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ ایرانی قیادت اور عوام دونوں ہی کے جذبات بھڑکا دیے جائیںاورقریب تھاکہ یہاں عربوں کے مابین ایک ایسی جنگ شروع کردی جائے جوبعدازاں مسلکی جنگ کی شکل اختیارکرلے لیکن بروقت معاملہ تھم گیا۔ ایسا کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ پوری تیاری کی گئی ہے۔ منصوبہ بندی میں بظاہر کوئی جھول نہیں۔ خفیہ معلومات کا نظام بھی ڈٹ کر کام کر رہا ہے۔ ایران کو نشانہ بنایا گیا تاکہ ایرانی قیادت اور عوام کے جذبات سعودی عرب کے خلاف بھڑک اٹھیں۔ ذرا سی توجہ سے معاملات کا جائزہ لینے پر عقدہ کھلا کہ ایران پر حملے داعش نے نہیں بلکہ اس قوت نے کیے ہیں جو داعش کو کنٹرول کر رہی ہے اوریہ بات خطے کے ممالک بھی جان گئے ہیں۔
ادھرامریکی محکمہ خارجہ نے صدر ٹرمپ کے حکم پرگزشتہ ماہ ایران پر مجوزہ میزائل معاہدے کی روح کی خلاف ورزی کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنے کاالزام لگاتے ہوئے نئی پابندیاں عائد کردی ہیں جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ یہ پابندیاں ایٹمی معاہدے کے منافی ہیں۔ایرانی صدر حسن روحانی دوسری بار صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد اپنی حلف برداری کی تقریب میںامریکی صدر ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کیا تو یہ اس کی سیاسی خودکشی ہو گی اور ایران اس وقت تک معاہدے کی شرائط پر عمل کرتا رہے گا جب تک دوسرے دستخط کنندگان بھی ایسا کرتے رہیں گے۔ انہوں نے خبردارکرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’عالمی سیاست میں نوواردوں‘سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، اور ’پرانے لوگوں‘پر زور دیا کہ وہ اس ایٹمی معاہدے کو ایک مثال کے طور پر دیکھیں کہ بین الاقوامی تعلقات کیسے نبھائے جاتے ہیں۔ ’وہ لوگ جو ایٹمی معاہدے کو پھاڑ کر پھینکنا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی زندگی کو چیر پھاڑ رہے ہیں۔‘انہوں نے امریکا پر الزام لگایا کہ وہ ناقابلِ اعتماد ساتھی ہے اوریورپی رہنماؤںپر زور دیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کا ساتھ نہ دیں۔ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ یورپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ٹرمپ ایٹمی معاہدہ ختم کر کے ایران کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایران کے رہبرِ اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کے سینئر مشیر علی اکبر ولایتی نے یورپ سے کہا کہ وہ ’ایران کے بارے میں زیادہ خودمختارانہ پالیسی اپنائے‘۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ امریکی پابندیوں اور صدر ٹرمپ کی کھلی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے ایران نے نیا بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرلیا ہے۔
اب معروف عالمی تجزیہ نگار وں نے بھی بالآخرتسلیم کرلیاہے کہ ترکی میں بغاوت اور دہشت گردی امریکا نے فتح اللہ گولن تحریک کے ذریعے کرائی ہے۔ اس معاملے میں کردستان ورکرز پارٹی سے بھی مدد لی گئی ہے۔ شام میں ڈیموکریٹک یونین پارٹی کے ذریعے خرابیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ تھوڑا سا انتظار اور کیجیے اور پھر دیکھیے کہ جنہوں نے داعش جیسی تنظیموں کے ذریعے شام اور دیگر اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے وہی اب عرب ایران جنگ کے نام پر درجنوں نئی انتہا پسند تنظیموں اور گروپوں کو میدان میں اتاریں گے۔
جو کچھ بھی اسلامی دنیا میں ہو رہا ہے اس کی پشت پر ایک ہی ہاتھ کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ اب عرب ایران جنگ کے نام پر مزید اور زیادہ وسیع البنیاد تباہی کا میدان تیار کیا گیا ہے۔ یہ جنگ جن لوگوں کے ذریعے لڑی جاسکتی ہے انہیں مختلف طریقوں سے اکسایا جارہا ہے۔ ایسا ماحول تیار کیا جارہا ہے جس میں کسی کے لیے غیر جانب دار اور لاتعلق رہنا ممکن نہ رہے۔ سب کو مجبور کیا جارہا ہے کہ کسی کو حق سمجھیں اور کسی کو باطل۔ یہ حق اور باطل کیا ہونے چاہییں، اس کا مدار بھی ماسٹر مائنڈ کی سوچ پر ہے۔ وہ جس چیز کو حق قرار دلوانا چاہتے ہیں اسے حق قرار دلواکر دم لیتے ہیں۔ یہ کھیل اس قدر واضح ہے کہ سمجھ میں نہ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
امریکا نے سعودی اورایرانی قیادت کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے لیے تیار کرلیا ہے اور اس مقصد کے لیے مصر کو بھی ساتھ لیا گیا ہے۔ قطر شاید جنگ کے لیے آمادہ نہ تھا اس لیے اسے الگ تھلگ کرنے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔مشرق وسطیٰ میں وسیع تر تباہی کی بنیاد بہت عمدگی سے ڈالی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں ایران کو بڑھاوا دیا گیا۔ اس کا ہاتھ تھام کر عراق، لیبیا، شام اور یمن میں خرابی پیدا کی گئی اور یہ تاثر پروان چڑھایا گیا کہ ایران پورے خطے کو ڈکار جانا چاہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں خطے میں شیعہ سنی اختلافات زیادہ نمایاں ہوکر ابھرے۔ خطے کے سنیوں نے ایران کے خلاف سوچنا شروع کیا۔ اور اب ایران پر حملے کراکے ایران اور دیگر ممالک کے شیعوں کے دلوں میں سنیوں کے لیے نفرت پیدا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مغربی طاقتیں مشرق وسطیٰ میں جس وسیع البنیاد فرقہ وارانہ جنگ کے خواب دیکھتی آئی ہے وہ اب برپا کرنے کی بھرپور تیاریاں کی جارہی ہیں۔
یہ فرقہ وارانہ آگ پورے خطے کو تباہی سے دوچار کرے گی۔ کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی ایک ملک بھی غیر جانب دار نہ رہ سکے یعنی اسے یا تو سعودی عرب کا ساتھ دینا ہے یا پھر ایران کا۔ یہ سب کچھ اس قدر تباہ کن ہوگا کہ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا بھی انتہائی دشوار ہے۔ اگر اس جنگ کو روکنے میں متعلقہ ممالک ناکام رہے تو پورا خطہ کم از کم 50 برس پیچھے چلا جائے گا۔ خطے کے عوام کے جذبات بھڑکانے اور انہیں فرقہ وارانہ سوچ اپنانے پر اکسانے کے لیے دہشت گردی کرائی جائے گی۔ سعودی عرب اور ایران میں بہت سے مقامات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے تاکہ عوام کے جذبات بھڑکیں۔ یہ معاملہ سمجھنے کا ہے۔ مغربی قوتیں کھل کر اپنا کھیل کھیلنا چاہتی ہیں۔ اس کیلئے وہ عوام کو بھی بروئے کار لانا چاہتی ہیں۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنیں یا نہ بنیں۔
ٹرمپ نے بہت تیزی سے مشرقِ وسطیٰ کو نئی جنگ کی طرف دھکیلنے کی بھرپور کوششیں شروع کردی ہیں۔ خطے کے تمام ممالک کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ کسی ایک کیمپ کا حصہ ضرور بنیں۔
ٹرائیکا (امریکا، اسرائیل اوربھارت) کی طرف سے پاکستان پرسب سے زیادہ دباؤڈالنے کا منصوبہ انتہائی خوفناک اوربے رحمی سے تیارکیاگیاکیونکہ پاکستان نہ صر ف پہلا اور واحد اسلامی ایٹمی قوت کاحامل ملک ہے اورمیزائل ٹیکنالوجی میں اس کی زبردست ترقی اورقوت نے اس ٹرائیکا کی نیندیں حرام کررکھی ہیں بلکہ دنیامیں معاشی اورصنعتی انقلاب کے کامیاب چشمے (سی پیک) بھی پاکستان سے پھوٹنے جارہے ہیں۔ پاکستان کی اسلحہ سازی میں نہ صرف خودکفالت بلکہ عالمی منڈی میں پاکستانی اسلحے کی روزافزوں مانگ سے بھی دشمنوں کے سینے پرسانپ لوٹ رہے ہیں۔ ادھر افغانستان کے تورابوراکے غاروںمیں داعش کے جنگجوؤں کوپہنچانے کی امریکاکی ساری کارروائی کی سازش بھی طشت ازبام ہوچکی ہے جس کے بروقت جواب میں پاکستان کے عسکری اداروں نے خیبرفور کا کامیاب آپریشن کرکے راجگال اور گردونواح کا 80 فیصدعلاقہ دہشت گردوں سے نہ صرف خالی کروالیاہے بلکہ اس دشوارگزارپہاڑی علاقوں پراپنے ٹھکانوں کومضبوط اورآئندہ کے لیے داعش کی ہرقسم کی مداخلت کوتقریباً ناممکن بنا دیا ہے جس سے ٹرائیکا سٹپٹاگیاہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ پاکستان میں پانامافیصلے اور موجودہ سول حکومت کی اکھاڑپچھاڑکے بعد ممکنہ انتشارکے منصوبے پرہم کس حکمت سے قابوپاتے ہیں۔
دوسری طرف خطے کی مسلم قیادتیں اگر نوشتۂ دیوار نہیں پڑھیں گی تو معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔ اگر کوئی وسیع البنیاد جنگ چھڑی تو مقدس مقامات کے حوالے سے بھی شبہات پیدا ہوں گے۔ ایسی صورت میں کس حد تک تباہی ہوسکتی ہے، معاملات کتنے بگڑ سکتے ہیں اس کا کسی کو بخوبی اندازہ نہیں۔ اس حوالے سے سوچنے اور محتاط طرز فکر و عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ خطے کے ہر ملک کی قیادت کو ذہن بیدار رکھنا ہوگا۔ اس آپسی جنگ کو کچھ بھی نام دے لیجیے، وہ ہوگی تو خطے کی تباہی کےل یے اور اس تباہی کے بعد خطے کو بحال کرنے میں ایک زمانہ لگ جائے گا۔