فلسطین قدیم میں دنیا کی چوتھی شہنشاہی

384

(گزشتہ سے پیوستہ)
بنو اسرائیل کی حکومت

بالآخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام نے اریحا کو جو ایک نہایت پرانا شہر تھا، فتح کرکے فلسطین پر قبضہ کیا۔ پھر یہ ملک بنو اسرائیل کے بارہ خاندانوں میں تقسیم ہوا اور وہاں حضرت یوشع علیہ السلام کے خلفا کی حکومت 400 یا 500 سال تک رہی۔ یہ خلفا قاضی کہلاتے تھے اور لوگوں کے مقدمات کے فیصلے کرتے تھے، مگر بنو اسرائیل محض مذہبی پیشوا اور حاکم ہونے پر قانع نہ تھے۔ ان کی بڑی تمنا یہ تھی کہ مثل دیگر اقوام کے ان کا بھی کوئی بادشاہ ہو، اس کے لیے وہ بار بار کنعائیوں پر جو وہاں کے قدیم باشندے تھے، حملے کرتے تھے، مگر شکست کھاتے تھے۔
شکست کھانے پر وہ اپنے مذہبی عقیدہ میں ڈگمگا جاتے تھے۔ چناں چہ وہ 7 بار ارتداد کی لعنت میں اور 7 ہی بار غیر قوموں کی غلامی کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔ بالآخر حضرت سموئیل علیہ السلام نے جو قاضی بھی تھے، خدا کے حکم سے طالوت کو 1050 ق۔م۔ میں بادشاہ مقرر کیا۔ اس پر بنو اسرائیل نے کہا کہ اسے ہم پر کیوں کر حکومت مل سکتی ہے، حالاں کہ اس سے تو حکومت کے ہم ہی زیادہ حقدار ہیں کہ اسے تو دولت کے اعتبار سے کچھ ایسی فارغ لبالی نہیں۔ حضرت سموئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ نے تم پر حکمرانی کے لیے اسی کو پسند فرمایا ہے اور مال میں نہیں تو علم اور جسم میں اس کو بڑی فراخی دی ہے۔
پھر ان لوگوں یعنی بنو اسرائیل نے اللہ کے حکم سے دشمنوں کو بھگایا اور حضرت دائود علیہ السلام نے جالوت کو قتل کیا۔ (سورئہ بقرہ) حضرت داود علیہ السلام طالوت کے لشکر میں تھے اور جالوت کو قتل کرنے پر طالوت نے اپنی بیٹی حضرت داود علیہ السلام کو بیاہ دی۔ اس تعلق سے طالوت کے بعد حضرت داود بادشاہ ہوئے اور ان کی ذات میں بادشاہی اور پیغمبری دونوں جمع ہوگئیں، جس سے حقیقی معنوں میں فلسطین میں مذہبی حکومت قائم ہوئی اور اس سے بنو اسرائیل کی پرانی آرزو پوری ہوئی۔
حضرت دائودعلیہ السلام نے یروشلم کے قدیم شہر کی ازسر نو تعمیر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر داود کہلایا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام 1020 ق۔م۔ میں بادشاہ ہوئے۔ انہوں نے قلعہ سلیمانی اور بیت المقدس کی تعمیر کی۔ بیت المقدس کی تعمیر میں 7 سال لگے۔ اس میں سونے کے پتھر لگے تھے، جس سے وہ بہت چمکتا تھا۔ تیاری کے بعد وہاں ’تابوت سکینہ‘ رکھا گیا، جسے اس وقت تک کوئی مکان نصیب نہ ہوا تھا اور اس لیے بنو اسرائیل اسے اپنے کاندھوں پر لیے لیے پھرتے تھے۔ یہ تابوت 20 ہاتھ لمبا، 10 ہاتھ چوڑا اور 10 ہاتھ اونچا ایک خیمہ کی شکل کا تھا۔ (ماخوذ ازتاریخ دنیا مؤلفہ ایچ جی ویلز) اس کے اندر پرانے تبرکات رکھے تھے، جن میں وہ تختی بھی تھی جس پر 10 احکامِ خداوندی کندہ تھے اور جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئے تھے۔
تابوتِ سکینہ کے پاس ٹھوس سونے سے بنے ہوئے 2 فرشتے 15 فٹ اُونچے کھڑے ہوئے تھے۔ عمارت کے اندر ہزاروں سونے اور چاندی کے برتن میزوں پر رکھے تھے اور جھاڑوں کی روشنی میں دن رات جگمگاتے رہتے تھے۔ وہاں کی سب سے بڑی میز پر متبرک روٹی رکھی جاتی تھی، جسے بجز مذہبی پیشوا کے اور کوئی نہ کھا سکتا تھا۔ عمارت کے باہر پیتل کی قربان گاہ رکھی تھی اور قربانی سے پہلے وضو کرنے کے لیے پیتل کا ایک بڑا برتن تھا، جو پیتل کے 12 بیلوں کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ دروازہ پر 2 پیتل کے ستون کھڑے تھے، جن کا دور 20 فٹ اور اونچائی 30 فٹ تھی۔ ایسا ہی شاندار وہ قلعہ تھا، جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنوایا تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارناموں کی وجہ سے بنو اسرائیل کا اقتدار بہت بڑھ گیا تھا اور ملکہ سبا کا ملک آپ کے زیرنگیں آجانے سے آپ کا شمار شہنشاہوں میں ہوگیا تھا۔ پہلے زمانہ میں مصر کے بادشاہ ایمن اوفیس سوئم نے بابل کی ایک شہزادی سے شادی کی تھی، مگر خود اپنی لڑکی بابل کے محل میں دینا گوارا نہ کی تھی، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ مصر کے گیارہویں خاندان کے بادشاہ نے انہیں اپنی لڑکی عقد میں دے دی۔
زمانہ قدیم میں شخصی حکومتیں قائم تھیں۔ اس وقت کے بادشاہ مختار کل ہوتے تھے اور اپنی سلطنت کے کاروبار میں سیاہ سپید کے مالک ہوتے تھے، لیکن اسی کے ساتھ رعایا کے حقوق کی نگہداشت اپنا پہلا فرض سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے یہ تھی کہ رعایا کی رضا جوئی پر ان کی سلطنت کی بنیاد قائم ہوئی تھی۔ حضرت دائودعلیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے پیغمبری کے ساتھ ساتھ بادشاہی کے فرائض بھی انجام دیے۔ پیغمبری کے اعتبار سے غربا کی نمایندگی کے اعلیٰ مراتب انہیں خداوند تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوئے تھے۔ یہ مسلم ہے کہ ان فرائض کو عوام الناس کے مفاد، آسایش اور آزادی کے لیے انہوں نے بہ درجہ اتم انجام دیا، جس سے ان کی بادشاہی کو چار چاند لگے اور آج تک ان کی بادشاہت کا ڈنکا بج رہا ہے۔
(جاری ہے)