وزیر خارجہ خواجہ آصف

334

61 گزشتہ دنوں چین، ایران اور ترکی کا دورہ کرکے واپس تشریف لے آئے، پاکستان واپسی پر وزیر خارجہ نے کہا ’’ہمیں امداد نہیں چاہیے، امریکا اپنا رویہ بدلے، دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے، اب ہم واشنگٹن سے ڈومور کا مطالبہ کریں گے، افغانستان کے فوجی حل کی سوچ درست نہیں۔ چین، ترکی اور ایران نے کشمیر کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے وغیرہ وغیرہ‘‘۔
سب سے پہلے تو اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو چین، ایران اور ترکی کا ایک ہی سفر میں دورہکرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 22 اگست کو ’’نئی افغان پالیسی‘‘ کا اعلان کرتے وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو جو دھمکیاں دیں اور جس کے بعد یکے بعد دیگرے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور افغانستان میں تعینات امریکی جنرل نکلسن نے پاکستان کے خلاف جو جارحانہ اور توہین آمیز گفتگو کی یہ اُس کا ہی نتیجہ ہے کہ وزیر خارجہ دوست ممالک کا دورہ کرنے پر مجبور ہوئے کیوں کہ حکومت پاکستان نے بجا طور پر یہ محسوس کیا کہ امریکا مستقبل میں پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بن کر آگے بڑھ رہا ہے جب کہ اسی خطرے ہی کو سمجھتے ہوئے آرمی چیف جنرل باجوہ نے کہا کہ ’’افغان جنگ کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا‘‘۔



علاوہ ازیں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ وزیر خارجہ کے غیر ملکی دورے پر روانہ ہونے سے پہلے اسلام آباد میں خارجہ امور پر پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر وزیر خارجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’خطہ کی صورت حال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور نئے اتحادی بن رہے ہیں، ہمیں بھی درست سمت کا تعین کرنا ہوگا، لہٰذا خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے‘‘۔ وزیر خارجہ کانفرنس کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر چین تشریف لے گئے جہاں 8 ستمبر کو چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کے ساتھ ان کی ملاقات اور مذاکرات ہوئے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران جو کچھ کہا وہ زیادہ تر پاک چین دوستی کی شان و شوکت بیان کرنے کے روایتی جملے تھے جب کہ پریس کانفرنس کا اہم انکشاف وہ تھا جو چینی وزیر خارجہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ’’چین نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے لیے نئی افغان پالیسی پر غور کیا ہے جب کہ ہمیں اُمید ہے کہ نئی امریکی پالیسی افغانستان اور علاقائی امن و استحکام کی بحالی کے لیے سود مند ثابت ہوگی‘‘۔ یعنی یہ کہ چین نے پاکستان کے ساتھ کھڑے رہنے کی بات تو ضرور کی لیکن امریکا کی نئی افغان پالیسی کہ جس کو پاکستان نے مسترد کیا اُس کو چین نے سود مند قرار دے دیا۔ بیجنگ سے وزیر خارجہ خواجہ آصف تہران کے لیے محو پرواز ہوئے جہاں ان کی ملاقات وزیر خارجہ جواد ظریف کے علاوہ ایران کے صدر جناب حسن روحانی کے ساتھ بھی ہوئی۔ ایرانی قیادت کے ساتھ مذاکرات کے بعد جو بیان جاری کیا گیا اس میں صدر روحانی کے حوالے سے کہا گیا کہ ’’بیرونی طاقتیں معاملات کا حل نہیں چاہتیں۔ افغانستان سمیت خطہ کا حل علاقائی ہے جب کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کی جانب سے کہا گیا کہ امریکی فوجیں افغانستان میں ناکام ہوچکی ہیں، افغانستان کے مسئلے کا حل کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ اس کا حل مذاکرات ہیں‘‘۔ 11 ستمبر کو ایرانی قیادت سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ نے انقرہ کے لیے اُڑان بھری کہ جہاں 12 ستمبر کو وزیر خارجہ خواجہ آصف کی ترکی کے صدر جناب طیب اردوان، وزیراعظم بن علی یلدرم اور وزیر خارجہ لدت کیواسوگو کے ساتھ ملاقاتیں اور مذاکرات ہوئے۔ ترک قیادت سے پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقاتوں کے بعد جو بیان جاری کیا گیا اس میں کہا گیا کہ ’’افغان مسئلے پر پاکستان کے ساتھ ہیں اور مزید یہ کہ پاک امریکا تعلقات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا‘‘۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دورہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پر حمایت حاصل کرنے کے لیے نہیں تھا کیوں کہ مذکورہ تینوں ممالک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی حمایت اور یو این او کی تسلیم شدہ قرار دادوں کی تائید کرتے ہیں، لہٰذا اس دورے کا ’’ون پوائنٹ ایجنڈا‘‘ تھا اور وہ یہ کہ
امریکا کی نئی افغان پالیسی کہ جس میں خطے کے امن اور پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے اس کو کاؤنٹر کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے بیجنگ، تہران اور انقرہ سے تعاون لیا جائے جب کہ اس کے لیے ضروری تھا کہ وزیر خارجہ اسلام آباد سے روانہ ہوتے وقت کوئی ایسا منصوبہ لے کر ساتھ جاتے کہ جس پر دوست ممالک سے حمایت لینے کی کوشش کی جاتی تا کہ خطے کے امن کو فائدہ پہنچتا جب کہ خود پاکستان بھی امریکی ڈرون حملوں سے محفوظ ہو جاتا۔ تاہم وزیر خارجہ خواجہ آصف کا چین، ایران اور ترک قیادت کے سامنے بار بار محض یہ کہتے رہنا کہ افغانستان میں امریکی فوج ناکام ہوگئی ہے اور مزید یہ کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے



بلکہ افغان مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ دورے کے مقاصد کی مکمل ترجمانی نہیں کیوں کہ وزیر خارجہ کے مذکورہ موقف پر یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر امریکی فوج ناکام ہوگئی ہے اور افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے تو پھر اس طرح کی صورت حال کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کے مزید ٹھیرنے کا جواز کہاں باقی رہ جاتا ہے۔ جہاں تک مذاکرات کی بات ہے تو مذاکرات خود کوئی حل نہیں ہوتے بلکہ کسی حل تک پہنچنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ماضی میں جب سوویت یونین کی سُرخ افواج افغانستان پر قابض تھیں تو اس کا حل مذاکرات نہیں انخلا بتایا گیا تھا جب کہ جنیوا مذاکرات سوویت افواج کے انخلا ہی کے لیے کیے گئے تھے، جنیوا معاہدے کے بعد ہی سوویت افواج 10 برس تک افغانستان میں ناک رگڑنے کے بعد بالآخر انخلا کرگئیں تو اب جب کہ امریکا اور اس کے ناٹو اتحادی 16 برس سے افغانستان میں ایک ناکام جنگ لڑ رہے ہیں اور مزید یہ کہ اپنی ناکامیوں اور شکست کا الزام پاکستان کو دے رہے ہیں تو کیا اس طرح کی صورت حال میں اب یہ ناگزیر نہیں ہوگیا کہ پاکستان امریکا کو بار بار اپنی قربانیاں یاد دلانے اور دوستی کی بھیک مانگنے کے بجائے صاف اور واضح الفاظ میں بتادے کہ ’’افغان بحران کا صرف ایک ہی حل ہے کہ تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے فوری انخلا کر جائیں اور افغان عوام کے اس حق اور اختیار کو تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنے ملک و قوم کے بہترین مفاد میں آزادانہ فیصلے کرنے میں بااختیار ہیں‘‘۔ لہٰذا اس ایک مطالبے کے ساتھ ہمارے وزیر خارجہ کو دورہ کرنا چاہیے تھا مگر چوں کہ ایسا نہیں کیا گیا، لہٰذا جواب بھی ایسا ہی ملا کہ کسی ایک نے بھی خطے میں امن و استحکام کے لیے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کی بات نہیں کی۔ افغانستان پر 16 برسوں سے حملہ آور فوجوں کے لیے انخلا کا مطالبہ نہ کرنا جہاں حکومت پاکستان کی ناکامی ہے وہیں پر مذکورہ ممالک کی قیادت کے بارے میں بھی تاثر پھیل رہا ہے کہ یہ ممالک ’’افغان بحران‘‘ کے حل کے لیے کسی بصیرت یا سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے بلکہ انخلا کا مطالبہ نہ کرکے خطے کے امن کو بالواسطہ نقصان پہنچارہے ہیں۔ خاص طور پر چین کی جانب سے نئی افغان پالیسی کو مسترد کرنے کے بجائے سود مند قرار دیا جانا پاکستانی وزیر خارجہ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنے دورہ کے دوران جو گفتگو کی اس سے ہر گز یہ واضح نہیں ہو پارہا کہ وزیر خارجہ کا دوست ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کا حقیقی مقصد کیا تھا، کیا وہ امریکی کیمپ سے باہر نکلنے کے لیے دوستوں کی مدد چاہتے تھے، افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے مطالبے کے لیے کوئی تائید یا حمایت حاصل کرنے گئے تھے یا یہ کہ دوستوں کو محض یہ بتانے کے لیے تشریف لے گئے تھے کہ ہم اب بھی امریکا کے حاشیہ بردار اور غیر ناٹو اتحادی رہنا چاہتے جس پر آپ ناراض نہ ہوں بلکہ اگر ہو سکے تو ہمارے تحفظات اور مقدمے کو مکمل سپورٹ دیں تا کہ امریکا مجبور ہو کر ہمیں واپس ’’فرنٹ لائن اتحادی‘‘ کی ڈیوٹی پر بحال کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی سے پاکستان کو اس قدر خطرہ نہیں تھا جس قدر خطرہ وزیر خارجہ خواجہ آصف کے مذکورہ ناکام دورے کے بعد پیدا ہوگیا ہے۔ اللہ ربّ العزت سے دُعا ہے کہ خطے کے امن و استحکام کے لیے ہماری مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین ثم آمین۔