آرزو دا در دل خود زندہ داد
تا نہ گردو مشتِ خاک تو مزار
اپنے دل میں آرزو کو زندہ رکھنا ورنہ مٹی کا جسم چلتا پھرتا مزار بن جائے گا۔
چین دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جو کسی کے لیے بھی آسان ثابت نہیں ہوا۔ وہ دنیا میں کیا کرتا رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، اس کا علم دنیا کو کبھی نہیں ہو سکا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک بہت کمزور ملک ہو اور کیا معلوم وہ امریکا سے بھی زیادہ مضبوط ہو، اس کے بارے میں پوری دنیا تذبذب ہی میں مبتلا پائی گئی ہے۔ ماضی میں چین کانام سننا تک پاکستان کے عوام کو گوارہ نہیں تھا۔ وجہ نظریاتی تھی۔ پاکستان اس لیے وجود میں آیا تھا کہ یہاں اللہ اور اس کے رسول ؐ کا نظام نافذ کیے جانے کا وعدہ تھا لہٰذا اس دور کے پاکستانی کسی ایسے ملک یا ممالک سے قربت کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے جن کا دنیا کے کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ چین ہو یا روس، یہ دونوں ممالک تو وہ تھے اور تاحال ہیں جو مذہب تو بہت دور کی بات ہے، سرے سے ربِ کائنات ہی کو نہیں مانتے تھے اور نہ اب قائل ہیں۔ چین یا روس سے قربت کا مطلب اس دور کے پاکستانیوں نے جو سمجھا وہ یہی کہ اگر ان ممالک سے قربت اختیار کی گئی تو پاکستان میں نظریاتی جنگ چھڑسکتی ہے جو کسی بھی بڑے فتنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں امریکا سے قربت زیادہ بہتر لگی کیوں کہ وہ ان کی تہذیب کو یسوع مسیح والی تہذیب خیال کرتے ہوئے کم از کم یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ اہل کتاب ہونے کے ناتے مسلمانوں کا کچھ نہ کچھ خیال ضرور رکھیں گے لیکن شاید چین اور روس سے نفرت ایک بھول تھی
اور امریکا سے خوش گمانی بھی ایک فاش لغزش جس کی سزا آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے۔
موجودہ حکومت نے آتے ہی کوشش کی کہ اس خطے میں چین سے قربت کو فروغ دیا جائے تاکہ اپنی معیشت کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکے چنانچہ چین سے قربت کی پالیسی اختیار کرنے کا عندیا دیا گیا۔ جس طرح پاکستان اپنی جغرافیائی پٹی کی اہمیت کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے اسی طرح چین کو بھی پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کا بہت اچھی طرح علم ہے چنانچہ ’’سی پیک‘‘ نظریہ تیر بہ ہدف ثابت ہوا اور اس منصوبے پر بہت تیزی کے ساتھ کام ہونے لگا۔
پاک چین دوستی جہاں پاکستان کے لیے نہایت سود مند تھی اور ہے وہاں یہی دوستی اس خطے میں موجود دیگر ممالک کے لیے، جن میں بھارت سر فہرست ہے، خطرے کا پیغام بھی ہے۔ پاکستان کا معیشت کے لحاظ سے مضبوط ہونا بھارت کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔ امریکا کے لیے بھی اس میں بڑے خدشات موجود ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ چین اس ایک ذرا سی سرمایہ کاری سے مزید مضبوط ہوجائے گا اور مستقبل میں اس کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔ یہی خدشات امریکا سے زیادہ بھارت کو چین سے ہیں اور ایک مضبوط اور مستحکم چین اسے کیسے گوارہ ہو سکتا ہے لہٰذا اس کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان جتنی دوری ممکن ہو سکے پیدا کی جائے۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب ’’سی پیک‘‘ کو ہم نے اس طرح لینا شروع کیا جیسے یہ ایک نعمت خدا وندی ہو اور
اگر ہم نے اس سلسلے میں ذرا بھی کوتا ہی کی تو (نعوذ باللہ) اللہ ناراض ہو جائے گا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر پاکستان کی سرزمین سے چین اپنا تجارتی ساز و سامان محفوظ طریقے سے لے جانے اور لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے پاکستان میں ترقی کی نئی راہیں پیدا ہوں گی۔ یہ بھی درست کہ ہم سے کئی گناہ فائدہ چین کو ہوگا لیکن ہمیں اپنا فائدہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ جب بات ہوتی ہے ’’محفوظ ترسیل‘‘ کی تو پھر اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ایسا سب کچھ مکمل امن کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔ اور۔۔۔ یہ مکمل امن پاکستان کے لیے بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان بننے کے 70برس گرزجانے کے باوجود دشمنیاں تو ضرور بڑھائی ہیں، دوستی کی جانب کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور اب تو معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ سرحدوں کے پارتوبے یقینی تھی ہی خود اپنے ملک کے چپے چپے پر ہم نے اپنوں ہی سے کٹا چھنی لگائی ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس کو دنیا کا کوئی ملک بھی پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتا۔ ہمارے اطراف کے ممالک تو جو رویے ہمارے لیے رکھتے ہوں ان کا ذکر ہی کیا، اس خطے میں ہمارا سب سے قریب سمجھا جانے والا ملک بھی لگتا ہے کچھ اکھڑا اکھڑا سا ہے۔چین کی مصنوعات ’’دونمبری‘‘ مشہور ہیں تو اس پر بے تحاشا انحصار کر لینا کسی بھی لحاظ سے اچھا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا ایک اچھا دوست ہے لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے دشمنوں کا دشمن بھی ہوگا۔ جہاں وہ پاکستان کے مفاد کو عزیز رکھتاہے وہیں سب سے پہلے اسے اپنا مفاد زیادہ عزیز ہوگا۔ پاکستان سے قریب ہونے کا مطلب اس کے نزدیک دوسرے ممالک سے دوری کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ارادے اور رویے کا اعادہ کرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی پانچ اہم ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم ’’برکس‘‘ نے پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پائی جانے والی شدت پسند تنظیموں لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کا ذکر کیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث، ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ اس اعلان کو انڈیا کی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اعلامیے میں ایسی تنظیموں کی سخت مذمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔یہ تنظیم کا نواں اعلیٰ سطح کا اجلاس تھا۔ تنظیم نے اس بات کو دہرایا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اولین طور پر ریاست کی ذمے داری ہے اور بین الاقوامی معاونت کو خود مختاری اور عدم مداخلت کی بنیادوں پر فروغ دینا چاہیے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس اجلاس سے پہلے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ ’’ہمیں پتا ہے کہ انڈیا کے پاکستان کے حوالے سے خدشات ہیں ہمیں ہمارے خیال میں برکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں ہے‘‘۔ اس بات سے بھی چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ برکس کے گزشتہ اجلاسوں میں چین نے پاکستان میں پائے جانے گروہوں کو اعلامیے میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ حالاں کہ گزشتہ اجلاس اوڑی حملے کے ایک ہفتے بعد ہی ہواتھا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چین جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی دہشت گرد قرار دینے کی کوشش پر کیا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ یہاں ’’عسکری‘‘ اور ’’سول‘‘ قیادت کی سوچ میں بہت واضح فرق رہا ہے۔ سول حکومت کی ہمیشہ یہ سوچ رہی ہے کہ اندرونی یا بیرونی خلفشار کو دور کرنے کا بہترین راستہ بات چیت ہی ہے۔ طاقت کا استعمال صرف اس وقت ہونا چاہیے جب کوئی اور راستہ نہ رہے جب کہ عسکری قوتوں کا ہر قسم کے خلفشار کو ختم کرنے کا طریقہ صرف ’’طاقت‘‘ ہے۔ ’’ایک پیج‘‘ والی بات بھی اس لیے اب تک تذبذب کا شکار ہے کہ کس کو کس کے پیج پر ہونا چاہیے۔ جب تک پاکستان کی قیادت کے یہ نازک مسائل حل نہیں ہوں گے مسائل بڑھتے ہی جائیں گے۔ ان مسائل میں جو خوفناک ترین مسئلہ سر ابھارے گا وہ دوستوں کا ہماری جانب سے مایوس ہوجانا ہوگا جیسا کہ اب چین کے موجودہ رویے سے سامنے آرہا ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان کو اس معاملے پر بڑی دانش مندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ اس کو آسان نہیں لیا جائے گا اور پاکستان کو پر امن بنانے کے لیے اپنے دوستوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔