قوم کے ساتھ تماشا کب تک؟؟

362

Edarti LOHپاکستانی قوم جس تماشے میں گھر چکی ہے اسے سمجھ میں ہی نہیں آرہا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہاہے۔ کبھی عدالتیں وقت ضائع کرتی ہیں، کبھی دھرنے والے اور کبھی نا اہل اور سزا یافتہ۔ اب خبر یہ ہے کہ نا اہل وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ عدالتوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالتوں میں جو بھی فیصلے ہوئے ان کے خلاف دلائل بھی دیے جاسکتے ہیں اور ان کے خلاف دیگر قانونی ذرائع بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں۔ اسحاق ڈار پیش ہوگئے اور ان کے خلاف فرد جرم بدھ کو عاید کی جائے گی۔ میاں نواز شریف بھی آج منگل کو پیش ہوجائیں گے۔ یقیناًان پر بھی فرد جرم کے لیے دو چار روز دیے جائیں گے پھر ان کے وکیل بھی اپنا کام کریں گے اور یوں مزید بہت سارا وقت گزر جائے گا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ احتساب عدالت میں پیشی کا میاں نواز شریف کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے 60 روز میں فرد جرم عاید کرنے کے حکم کے مطابق نیب کو موقع دینے کے لیے ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ فرد جرم کیا عاید کی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہگا کہ قوم کے ساتھ کیا مذاق کیا جاتا ہے۔



بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف جو مقدمات درج کرائے تھے ان میں سے بیشتر میں دونوں نے ایک دوسرے کو براہ راست ملزم تک نامزد نہیں کیا تھا بس میڈیا میں شور مچتا تھا کہ سرے محل کے مالک اور لندن کے فلیٹس کی ملکیت یا غیر قانونی دولت کے الزامات، مرتضیٰ بھٹو پر قتل کے مقدمات اور دہشت گردی کے الزامات۔ یہ سب محض میڈیا کی حد تک تھے۔ اصل مقدمات میں کسی کو براہ راست نامزد ہی نہیں کیا گیا تھا اور جس مقدمے میں نامزد کیا اس کے بارے میں عدالتوں کو 17 برس بعد پتا چلا کہ فوٹو کاپی کی بنیاد پر مقدمہ نہیں بنتا۔ اسی طرح اب میاں نواز شریف کے خلاف فرد جرم میں کیا دفعات لگائی جاتی ہیں، الزامات کیا لگائے جاتے ہیں ان کی اصل اہمیت ہوگی۔ یہ سارا کام میاں صاحب کو عدالتوں کے ذریعے بری کرانے کا ڈراما بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا کہ قوم کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ایک اعتبار سے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھی عدالتوں میں معاملات طے کرنا چاہتے ہیں۔ بس عدالتوں کے فیصلوں پر عمل بھی کیا جانا چاہیے۔ ہمارے حکمرانوں کا یہ رویہ بھی عجیب ہے کہ عدالتیں فیصلے دیتی رہ جاتی ہیں اور وہ فیصلوں پر عمل ہی نہیں کرتے۔ میاں نواز شریف کا موقف اپنی جگہ درست ہے کہ بات پاناما سے شروع ہوئی تھی اقامہ کہاں سے آگیا لیکن ساری عدالتی کارروائی اور حکومت اور نواز شریف خاندان کے بیانات کے تضادات سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ ان لوگوں کا عوامی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ پیسہ بنانے آتے ہیں اور پیسہ بناکر چلے جاتے ہیں۔ بات صرف میاں نواز شریف کی نہیں،جناب آصف زرداری بھی کوئی مصلے پر بیٹھے ہوئے فرد نہیں ہیں۔ ان کی کارستانیاں بھی سامنے ہی ہیں۔



اب تو قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرنے والے عمران خان نے خود ہی دفعات 63،62 کی خلاف ورزی اور سٹے بازی سے رقم وصول کرنے کا اعتراف کرلیا۔ وہ بھی وہی سوال کررہے ہیں جو نواز شریف کررہے تھے بلکہ اب بھی کہہ رہے ہیں کہ میں نے قومی دولت تو نہیں لوٹی۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ میں نے سٹے کی رقم سے قرضہ ادا کیا کون سا غلط کام کیا۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ پارٹی فنڈ میں رقم نہیں گئی پھر کہتے ہیں کہ قرضہ پارٹی پر تھا پارٹی کا قرضہ اتارا۔ اسی انٹرویو میں کہتے ہیں کہ رقم میں نے لی، پارٹی کا اس سے کیا تعلق۔ پاکستانی قوم اندازہ کرے کہ کس قسم کے لوگ اس کی قیادت کے دعویدار ہیں۔ میاں نواز شریف پاکستان سے رقم لندن منتقلی، قطر سے پاکستان یا لندن منتقلی، فلیٹوں کی خریداری سمیت کسی معاملے میں عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے۔ یعنی قوم کو بھی مطمئن نہیں کرسکے اور پھر بھی کہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا، میرا کیا قصور ہے، اب عمران خان سٹہ کھیلنے والے کی مدد کا اعتراف کررہے ہیں اور کہتے ہیں میں نے کیا غلط کیا؟؟ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ اس پر کیا ایکشن لیتی ہے۔



عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو محض اس لیے نا اہل قرار دیا کہ انہوں نے تنخواہ چھپائی۔ جب کہ وصول بھی نہیں کی تھی۔ اب عمران خان نے تو سٹے کی رقم وصول کرنے اور پارٹی کا قرضہ ادا کرنے کا اعتراف کرلیا ہے پھر بھی معصوم ہیں۔ عدالت عظمیٰ تنخواہ چھپانے پر نا اہل قرار دے سکتی ہے تو کیا سٹے کی رقم وصول کرنے کا اعتراف کرنے پر رکن اسمبلی کو نا اہل قرار نہیں دے سکتی۔ پاکستانی کرکٹرز پر تو بکی سے ملاقات اور بکی کی پیشکش کی خبر اور تصویر کی بنیاد پر پابندی لگ جاتی ہے۔ کسی سے ملاقات کی تصویر پر کرکٹ بورڈ کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کر بیٹھتا ہے اور یہاں کپتان سٹے کی رقم وصول کرنے کا اعتراف کررہے ہیں اور ساتھ ہی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی قوم کے ساتھ مذاق ہے۔ اس کا مطلب حکومت کو فرار کا موقع دینا ہے۔ اگر حکومت ختم ہونی تھی اور نئے انتخابات کرانے کی بات کرنی تھی 28 جولائی کو کی جانی چاہیے تھی جس روز میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ اب اس بات کا کوئی جواز نہیں۔ اب تو 2018ء کا انتظار کرنا چاہیے۔