اقوام متحدہ، آپریشن تھیٹر یا میک اپ روم؟

438

zc_ArifBeharشاہد خاقان عباسی کہنے کو تو ’’مہمان وزیر اعظم‘‘ ہیں جن کا جلد یا بدیر جانا یقینی دکھائی دیتا ہے۔ خود شاہد خاقان عباسی بھی کسرِ نفسی کے اعلیٰ درجے پر فائز رہ کر اپنے اصلی وزیر اعظم ہونے کا تاثر قائم نہیں ہونے دیتے مگر اقوام متحدہ کے ایوان میں انہوں نے جو خطاب کیا وہ لب ولہجہ مستقل وزرائے اعظم کا مقدر کم ہی ٹھیرا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بہترویں اجلاس سے ان کا خطاب ’’انڈیا سینٹرک‘‘ تھا۔ بھارت کے بعد ان کے مخاطب وہ عالمی جنگ باز تھے جو اپنے ہاتھوں میں افغانستان کی فتح کی ریکھا نوک خنجر سے کھرچ رہے ہیں اور اس خواہش اور تمنا میں اپنے ہاتھ بھی زخمی کروا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم پر کسی سربراہ حکومت کا خطاب بظاہر تو ایک فرد کے خیالات اور الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے مگر اس کی تیاری میں پوری ریاست کی پالیسی کو سمویا جاتا ہے۔ یہ خطاب ریاستوں کی مجموعی پالیسی اور سوچ کا عکاس ہوتا ہے۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کے خطاب کی تیاری میں بھی ریاستی اداروں کی مشاورت اور اجتماعی دانش شامل رہی ہوگی۔ اس مشاورت اور دانش کی جھلکیاں وزیر اعظم کے خطاب میں واضح طور پر نظر آئی۔



شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کیا جائے۔ عالمی برادری کو کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ بھارتی فوج کشمیر میں پیلٹ گن استعمال کررہی ہے جس کے استعمال سے بچوں سمیت ہزاروں کشمیری بینائی کھو چکے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کشمیر پر جنگی جرائم کی عالمی سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے ایک مشن بھیجیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے بھارت کو پاکستان کی مغربی سرحد سمیت شدت پسند انہ کارروائیاں روکنا ہوں گی۔ شاہد خاقان عباسی نے افغانستان کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اتحادی افواج، افغان حکومت اور طالبان تینوں طاقت کے زور پر مقاصد حاصل نہیں کر سکتے انہیں بات چیت کرنا ہوگی۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان کا کردار ہرگز قابل قبول نہیں۔ اگر بھارت نے کنٹرول لائن پر محدود جنگ کی حکمت عملی اختیار کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ اس سے پہلے شاہد خاقان عباسی یہ بھی بتا چکے تھے کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بھارت کے خطرے کے پیش نظر تیار کیے تھے۔ شاہد خاقان عباسی کی ان کھری کھری باتوں پر بھارت کی تلملاہٹ دیدنی تھی اور جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی مندوب مس اینم گمبھیر نے پاکستان پر روایتی الزامات عائد کیے اور پاکستان کو ’’ٹیررستان‘‘ قرار دیا۔ حافظ سعید کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا قصہ چھیڑ دیا اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا پرانا راگ الاپا۔



شاہد خاقان عباسی کا خطاب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں در آنے والی تبدیلی کا اشارہ دے رہا ہے۔ یہ خطاب بطور ریاست پاکستان کی خود اعتمادی کا مظہر تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ اب واقعی پاکستان ’’ڈومور‘‘ کی گردان سے تنگ آکر اپنی بات کھل کر کہنے پر مجبور ہور ہا ہے۔ اب عالمی اور علاقائی صف بندیاں تقریباً مکمل ہو چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں کھیل اس مرحلے میں داخل ہوگیا ہے کہ اب مبہم اور ذومعنی اصطلاحات، نرم محاوروں اور اشاروں، کنایوں اور علامتوں سے کام نہیں چل رہا۔ اقوام متحدہ ایک عالمی فورم ہے جس کی تخلیق اور قیام کا اولیں مقصد دنیا میں تنازعات کا حل رہا ہے مگر چند بااثر طاقتوں نے اس اہم ترین عالمی جرگے کو ڈیبیٹنگ کلب بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔ اس ادارے میں عالمی اور علاقائی مسائل کی گونج اس طرح سنائی نہیں دیتی جس طرح کہ ہونا چاہیے۔ یہ کرہ ارض کے مسائل کے باعث چیچک زدہ چہرے کا میک اپ روم ہے۔ جہاں تقریروں، مباحثوں اور قراردادوں کے میک اپ کی تہہ میں اصل تنازعات کے بدنما اور قبیح صورت داغ چھپائے جاتے ہیں۔ حقیقت میں دنیا کے مسائل جس رفتار سے بڑھ رہے ہیں اس ماحول میں عالمی ادارے کو محض میک اپ روم کے بجائے آپریشن تھیٹر کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مسائل کو مصلحت کی ملمع سازی میں چھپانے کے بجائے ان کی سرجری کا کڑوا گھونٹ پینا ہوگا۔ اقوام متحدہ کا موجودہ اسٹائل سرد جنگ کے عہد کی یادگار ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد تو اقوام متحدہ کا کردار مزید محدود اور نمائشی ہو کر رہ گیا ہے مگر اب ایک نئے منظر اور نئے جہان کی تشکیل ہورہی ہے اس نئے منظر میں عالمی ادارے کا رول بھی از سر نو متعین ہونا لازمی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خطاب نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے دنیا میں کشمیر جیسے سلگتے ہوئے مسائل موجود ہیں جو عالمی نظام کے ’’سب اچھا‘‘ ہونے کے مصنوعی تاثر کی نفی ہی نہیں کرتے بلکہ جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا کیے ہوئے ہیں۔