وزیر اعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب

695

zc_alamgirAfridiوزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے72ویں سربراہ اجلاس سے خطاب کے دوران دنیا پر بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت اور انسانیت سوز مظالم روکنے کے لیے پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر جاری انسانی حقوق کی پامالی کی جانچ پڑتال کے لیے انکوائری کمیشن بجھوایا جائے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی تشدد سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کنٹرول لائن کی اس سال جنوری سے اب تک چھ سو مرتبہ خلاف ورزی کر چکا ہے بھارت کی جانب سے کسی بھی محدود جنگ کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے اقوام عالم کو کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادیں یاد دلاتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے نمائندہ مقرر کرنے، نیز بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر مذاکرات کی بحالی پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے افغانستان کی صورت حال واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی کو بھی یہ جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑنے دے گا، جو قوتیں افغانستان میں اپنی ناکارہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتی ہیں انہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں ہے اور وہاں چالیس سال سے جاری بیرونی جارحیت اور بدامنی کا فوجی حل نکالنے کے بجائے سیاسی مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے ہی کوئی دیرپا حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ کنٹرول میں ہیں اور پاکستان کو یہ ہتھیار اپنے پڑوسی کی پہل اور اس کی جارحانہ دھمکیوں کے باعث بنانے پڑے ہیں۔



وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کا قلم دان سنبھالے ابھی چند دن بھی نہیں ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اقوام متحدہ کے سب سے بڑے عالمی فورم پر پاکستان اور عالم اسلام کو درپیش سنگین مسائل کا بیس منٹ کی مختصر تقریر میں جس احسن اور متوازن انداز میں احاطہ کیا ہے وہ یقیناًلائق تحسین ہے۔ یہ بات پوری قوم کی توجہ کے قابل ہے کہ شاہد خاقان عباسی جن کے شاید کبھی وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا کہ وہ کبھی وزیر اعظم بھی بن سکیں گے لیکن اب جب وہ حسن اتفاق سے وزیر اعظم بن چکے ہیں نے اس عمومی تاثر کے باوجود کہ وہ ڈمی وزیر اعظم رہیں گے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اشارے کے بغیر ان کے لیے پتا ہلانا بھی مشکل ہوگا لیکن پچھلے چند ہفتوں کے دوران انہوں نے پارلیمنٹ کو وقت دینے اور قومی سلامتی سے متعلق امور میں سول اور فوجی قیادت کی مشاورت سے جو بعض اقدامات اٹھائے ہیں اس نے بطور وزیر اعظم ان کا قد کاٹھ کافی بڑھا دیا ہے۔ اسی تناظر میں انہوں نے اب جنرل اسمبلی سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں جاری خون ریزی کی جانب عالمی برادری کی توجہ جس پراعتماد انداز میں مبذول کرائی ہے اور بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزیوں اور اس کے جنگی جنون اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرنے کو جس واضح انداز میں اقوام عالم کے سامنے پیش کیا ہے یہ اسی کا اثر ہے کہ بھارت کی اقوام متحدہ میں مستقل مندوب نے اپنی ہندو ذہنیت آشکارہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ٹیررستان کی اصطلاح استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔ بھارت کی اس بوکھلاہٹ کے پیچھے اصل وجہ اس کے مکروہ چہرے کا بے نقاب ہونا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھارتی افواج کے ہاتھوں ننگی جارحیت اور پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال سے ہزاروں بے گناہ اور نہتے کشمیری خواتین، بچوں اور جوانوں کی بینائی سے محرومی، درجنوں نوجوانوں کی شہادت اور سیکڑوں کی گرفتاریوں اور غائب کیے جانے، نیز کشمیری رہنماؤں کی مسلسل نظر بندی اور کئی مہینوں سے کرفیو کے نفاذ کو جس جرأت مندانہ انداز میں جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اٹھاتے ہوئے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجوڑا ہے یہ اسی کا ردعمل ہے کہ بھارت دلیل اور منطق کی زبان کے بجائے پاکستان کے خلاف غیر سفارتی اور غیر اخلاقی ہزرہ سرائی پر اُتر آیا ہے۔



وزیر اعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں افغانستان کے مسئلے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بے تکی پالیسی کا جس متوازن اور ڈپلومیٹک انداز میں پوسٹ مارٹم کیا ہے اس کے ذریعے بھی انہوں نے یقیناًپوری قوم کے احساسات اور جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ اس ضمن میں ان کا عالمی قوتوں کو یہ باور کرانا کہ افغانستان کا مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ پچھلے چالیس سال سے عالمی طاقتوں کی مسلسل مداخلت کے نتیجے میں سلگ رہاہے اور جب امریکا اور اس کے اتحادی پچھلے سولہ سال میں اس بحران کا کوئی فوجی حل نہیں نکال سکے ہیں تو اس بات کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے کہ امریکی صدر اپنی نئی جارحانہ اور غیر حکیمانہ پالیسی جس پر افغان قضییکے سب سے زیادہ متاثرہ فریق پاکستان کو اعتماد میں لیا جانا تو کجا الٹا اس نئی پالیسی میں امریکا کی ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر گراتے ہوئے اس سے ڈومورکا مطالبہ کیا گیا ہے کے ذریعے وہ افغان بحران کیونکرحل کر سکیں گے۔ اسی طرح امریکا نہ جانے اس حقیقت کو سمجھنے سے کیوں کر قاصر ہے کہ اس کی جانب سے افغانستان میں بھارت کوکوئی کردار دینے سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے نہ صرف مزید پیچیدگی کا شکار ہوجائے گا بلکہ خطے کا کوئی بھی ملک بھارت کا یہ کردار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا لہٰذا اس پس منظر میں وزیر اعظم پاکستان نے جو توجہات دلائی ہیں توقع ہے کہ عالمی برادری ان کو ملحوظ خاطر رکھے گی۔