کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا ، اب پڑھنے لگا ہے یہ جرم نہیں ہے لیکن!!! رپورٹ کریں ۔ انہوں نے تبلیغ شروع کردی ہے، رپورٹ کریں ۔ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھ گئے ہیں ، وہ بھی رپورٹ کریں ۔ اس ٹائپ کی جو بھی ایب نارمل ایکٹویٹیز ہیں وہ رپورٹ کریں ۔ ‘‘ اگرچہ ثنا اللہ عباسی نے یہ کہا ہے کہ جامعات کو برقع پہننے،نماز پڑھنے، داڑھی رکھنے والے طلبہ کے حوالے سے سی ٹی ڈی کو آگاہ کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے بہت سی وضاحتیں کی ہیں لیکن اس ٹی وی کلپ کا کیا جائے جس میں وہ ایک ایک شرعی حکم کا نام لے کر فرما رہے ہیں کہ رپورٹ کریں ، تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ سی ٹی ڈی کو رپورٹ کریں ۔ پھر کس کو رپورٹ کریں ؟ یہ کیا ایب نارمل باتیں ہیں ۔ ساری دنیا میں امت مسلمہ کے بچوں میں اگر دین سے قربت پیدا ہو تو والدین کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ اب بچہ نماز پڑھنے لگا ہے۔ خیر سے داڑھی بھی رکھ لی ہے کبھی کبھی تبلیغ میں بھی چلا جاتا ہے۔ اور لڑکیوں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ جب سے سمجھ اور شعور میں اضافہ ہوا ہے برقع پہننے لگی ہے۔ تو اس کی رپورٹ کس کو کریں ۔ یہ ایڈیشنل آئی جی صاحب اور اسی قبیل کے دوسرے افسران ہیں ان کے بارے میں علمائے کرام نے جو کچھ کہا ہے وہ بہت نرم الفاظ ہیں۔ بعض علما تو براہ راست دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی بات کررہے تھے ان کا یہ موقف سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص شعائر اسلام کو دہشت گردی قرار دے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اے آئی جی نے اسے دہشت گردی ہی سے جوڑا ہے۔
تاہم جو کچھ علما اور سیاسی رہنماؤں نے کہا ہے طلبہ نے اور وائس چانسلرز نے کہا ہے کہ اس سے قطع نظر دستور پاکستان کی رو سے ہر پاکستانی کو اپنے مذہبی مراسم ادا کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔ جبکہ برقع اوڑھنا داڑھی رکھنا اور نماز یا تبلیغ شعائر اسلام میں سے ہے ا ن کو اختیارکرنے پر رپورٹ کرنے کی بات اسلام سے کھلی بغاوت ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سی ٹی ڈی یا کسی افسر اور حکومت کے ذمے دار نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اگر کوئی اچانک سگریٹ پینے لگ جائے تو اس کی رپورٹ کریں ۔ حالاں کہ یہ جرم نہیں لیکن رپورٹ کریں ۔ اگر کوئی راتوں کو دیر سے گھر آئے اور ٹولیوں میں بیٹھنے لگ جائے تو رپورٹ کریں ۔ حالاں یہ بھی جرم نہیں ہے لیکن رپورٹ کریں۔ اور جو جرائم ہیں ان کے بارے میں تو باقاعدہ پولیس ہی کی سرپرستی ہے۔ شراب خانے، جوئے کے اڈے ، چرس اور منشیات کی فروخت اور فحاشی کے اڈے ۔ ان تمام کی سرپرستی پولیس ہی کرتی ہے۔ اس کی رپورٹ کریں ، اگر چہ یہ ایک پولیس افسر کا بیان ہے جو صوبائی حکومت کے ماتحت ہے لیکن اسلام اور اسلامی شعائر امت مسلمہ کا معاملہ ہے اور بیان میں دستور پاکستان کی خلاف ورزی کی گئی ہے لہٰذا حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
عباسی صاحب نے یہ درست کہاہے کہ سزا و جزا کا معاملہ اپنے ہاتھوں میں لینا درست نہیں۔ اب اگر پارلیمنٹ اور آئین پاکستان بروئے کار نہ لائے گئے اور ثنا اللہ عباسی سے آئی جی سندھ، حکومت سندھ یا قومی اسمبلی اور وزارت مذہبی امور میں سے کوئی بھی باز پرس نہ کرے تو یہ معاملہ پھر عوام کے ہاتھ میں آ جائے گا اور جس چیز پر عباسی صاحب کو اعتراض ہے وہی ہوسکتا ہے وہ سوشل میڈیا پر مہم پر برہم ہیں ۔ بالکل درست ، سوشل میڈیا پر کوئی کام قانون ، اخلاق یا کسی اصول کا پابند نہیں ہوتا لیکن پولیس افسران تو آئین اور قانون کے پابند ہونے چاہییں۔ آئی جی سندھ اور حکومت سندھ کو بھی اس حوالے سے ایکشن لینا چاہیے۔اور سب سے بڑھ کر عباسی صاحب اللہ اور امت مسلمہ سے معافی مانگ لیں بات ہی ختم ہو جائے گی۔