فوج کو گالیاں دینے والے کب گرفتار ہوں گے

245

Edarti LOHپاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان اور فوج کو گالیاں دینے والے جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ سمندر پار بیٹھے لوگ ملک اور فوج کو گالیاں دیتے ہیں ، ہم ہر اندرونی اور بیرونی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے بلا امتیاز ایسے تمام افراد کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا گیا ہے جو بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف مہم چلاتے ہیں ، تقریریں کرتے ہیں اور بیانات دیتے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں ان لوگوں کے بیانات اور خبروں وغیرہ پر تو پابندی لگادی گئی ہے لیکن ان کی گرفتاری کے لیے جو قانونی کارروائیاں ہونی چاہیے تھیں وہ نہیں ہو رہیں اور جس طرح انہیں گرفت میں لیا جانا چاہیے تھا یہ کام نہیں ہو رہا۔ اگرچہ اس حوالے سے خبر میں کسی کانام نہیں لیا گیا ہے لیکن پاکستان توڑنے کی باتیں کرنے میں متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین سب سے آگے رہے ہیں اور فوج اور جرنیلوں کے خلاف غیر مہذب گفتگو کرنے میں بھی ان ہی کا نام سرفہرست ہے ۔ جبکہ تازہ ترین حالات کی روشنی میں بلوچستان کے حوالے سے بھی کچھ لیڈروں کا نام آسکتا ہے۔



تاہم کوئی بھی فرد ہو پاکستان کے بارے میں ایسے خیالات کے اظہار پر اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ آرمی چیف سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ لندن میں بیٹھ کر الطاف حسین نے آرمی چیف، آئی ایس آئی چیف، ڈی جی رینجرز اور دیگر افسران کے بارے میں نہایت گھٹیا زبان استعمال کی تھی۔ لیکن اس کی تقریریں بند کرنے سے بڑھ کر کوئی اقدام نہیں کیا جاسکا۔ سابق حکمران میاں نواز شریف تو اس حوالے سے زبان ہی بند رکھتے تھے البتہ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ رحمن ملک اور دیگر رہنما دوڑے دوڑے لندن جاتے تھے۔ آزادی اظہار رائے اپنی جگہ لیکن ریاست کا وقار اور احترام لازم ہے،امریکا میں بھی ریاست کے خلاف بات نہیں کی جاسکتی۔ یہاں تو آئین ، فوج، پاکستان کسی کو نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ کھلے عام را سے مدد مانگی جاتی تھی اور اس پر تالیاں بجانے والے حیرت انگیز طور پر آج بھی ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ہیں ۔ اگر بیرون ملک بیٹھ کر ملک توڑنے کی باتیں کرنے اور فوج کو گالیاں دینے والے کو جلد گرفتار کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے تو جو لوگ ابھی گرفت میں آسکتے ہیں پہلے ان کے خلاف کارروائی کی جائے جو ان باتوں پر واہ واہ کیا کرتے تھے اور ان کی تائید کرتے تھے وہ لوگ اسمبلیوں میں وی آئی پی بنے بیٹھے ہیں۔