آجاؤ! آئین میں ترمیم ہوگئی

515

baba-alifچار برس حکومت کرکے سابق وزیر اعظم نواز شریف دور دیس جابسے تو گمان یہی تھا ایک بار پھر خواب ہوجائیں گے۔ ہم نے تو یہ ٹھان لی تھی کہ اس مرتبہ ان کا سب سے پہلے انٹرویو ہم کریں گے۔ چشم تصور میں ہم نے ان کا نقشہ بھی کھینچ لیا تھا۔
نواز شریف کو صحرا میں جو جاکر دیکھا
سوکھ کر عشق میں حکومت کے ہوئے تھے کانٹا
عمران خان بھی شادباد منزل مراد گا رہے تھے کہ اب نواز شریف بیرون ملک سے ٹیلی فونک خطاب کرنے تک محدود رہیں گے۔ لیکن نواز شریف اقبال کا واحد شعر (اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی۔ جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتا ہی) جو ان کو یاد ہے، گنگناتے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی فضاؤں میں موجود ہیں۔ اس مرتبہ وہ پردیس جاکر بکری نہیں ہوئے، مقابلہ کرنے کے لیے پھر اکھاڑے میں آگئے ہیں۔ سیاست دان بھی ایسی پکی ہوئی چیز کی طرح ہوتے ہیں جس کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ خراب ہے یا ٹھیک۔ اس کو پھینکنے کو بھی جی نہیں کرتا اور کھانے پر بھی طبیعت مائل نہیں ہوتی۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اللہ پر بھروسا کرکے وہ چیز کھالی جائے۔ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو گھر والے سمجھ جائیں گے وہ چیز خراب تھی اور اگر آپ صحیح سلامت رہیں تو مبارک ہو آپ کی حلال کی کمائی ضائع ہونے سے بچ گئی۔ جمہوریت بھی یہی کہتی ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت خراب ہے تو اس کو باہر نہ پھینکیں بلکہ صبر تحمل سے چلنے دیں۔



بری جمہوریت کا علاج مزید جمہوریت ہے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا مرجائیں گے اور گر بچ گئے تو یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن نہ جانے کچھ ادارے یہ کیوں نہیں سمجھ رہے۔ نواز شریف کی رخصت پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال تھی۔ پھر یہ بھونچال آنکھ میں آئے بال کی مانند ثابت ہوا جس کو رگڑ رگڑ کر آنکھ لال کرلی جاتی ہے لیکن پانی کے چند چھپکوں سے نہ سرخی رہتی ہے اور نہ تکلیف کا احساس۔ آج کل ایسی ہی صورت حلال ہے۔
پروشیا کے بادشاہ فریڈرک دی گریٹ نے ایک مرتبہ فوج کے ایک چھوٹے افسر کو امتیازی نشان عطا کیا تو اس نے بادشاہ کو مخاطب کرکے کہا ’’جہاں پناہ! میں خود کو اس کا حق دار نہیں سمجھتا، یہ تمغا میں صرف میدان جنگ میں ہی وصول کرسکتا ہوں‘‘ فوجی افسر کو توقع تھی کہ بادشاہ اس کی بات سے خوش ہوکر انعام کی رقم میں اضافہ کردے گا یا کم ازکم تحسین کے کلمات تو ضرور کہے گا لیکن توقع کے برخلاف بادشاہ نے کہا ’’عجیب احمق آدمی ہو کیا تمہاری خاطر میں جنگ چھیڑدوں۔‘‘ سیاست دانوں کو نوازنے کے لیے جنگ تو نہیں چھیڑی جاتی البتہ آئین سے چھیڑ چھاڑ اور ترامیم کچھ معیوب نہیں سمجھی جاتیں۔ آج کل ایسا ہی سلسلہ جاری ہے۔ سینیٹ نے پچھلے دنوں انتخابات بل 2017 کی منظوری دی۔ جب کہ اپوزیشن کی ترامیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔ بل کی شق 203 منظور کر لی گئی جس کے تحت کوئی بھی نا اہل یا سزا یافتہ شخص پارٹی کا صدر بن سکے گا۔ شق کی حمایت میں 38 مخالفت میں 37 ووٹ آئے۔ انتخابات بل میں چودھری اعتزازاحسن کی جانب سے لائی گئی ترامیم میں نااہل اور سزا یافتہ شخص پر کسی جماعت کا صدر بننے کی پابندی کا برقرار رکھنے کا کہا گیا تھا۔ تاہم یہ ترمیم منظور نہ ہوسکی۔ سینیٹ میں منظور کردہ انتخابات بل کی روشنی میں رکن پارلیمنٹ کی نااہلی بھی زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوگی۔ سینیٹ سے منظور کردہ اس بل کو دوبارہ قومی اسمبلی میں لایا جائے گا جہاں منظوری کے بعد یہ انتخابی قانون بن جائے گا۔



جو لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اس نظام میں کرپٹ حکمرانوں کا احتساب ممکن ہے انہیں یقیناًاس نئی پیش رفت سے مایوسی ہوئی ہوگی۔ ایک چھوٹے سے گھر کو سنبھا لنے کے لیے ہم کسی ایسے ملازم کو رکھنے کا تصور نہیں کرسکتے جو چور اور بددیانت ہو۔ اگر غلطی سے ایسا ہو بھی ہوجائے تو ہم اس ملازم کو کھڑے کھڑے نکال دیتے ہیں اور پھر تا زندگی اسے قبول نہیں کرتے لیکن اس سسٹم میں ایک بددیانت عہدے دار کو اول تو نکالنا ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اگر یہ انہونی ہو بھی جا ئے تو پھر کسی اور نام کسی اور بھیس یا پھر اسی نام اور کام کے ساتھ اس کے واپس آنے کے پچاس راستے کھلے ہوتے ہیں یا کھول دیے جاتے ہیں۔
اس سسٹم میں حکمران جب چاہیں قوانین میں ترامیم کرکے اپنی ذات، پالیسیوں اور جرائم کو عدالتی کارروائی سے بالاتر بناسکتے ہیں۔ ہمارے آئین کا آرٹیکل 248 صدر اور گورنر صاحبان کو عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ سترہویں آئینی ترامیم کی بدولت جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی تین برس کے اقدامات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا جس کی وجہ سے افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دے کر لاکھوں افغان مسلمانوں کا قتل عام کرانے، سیکڑوں مسلمانوں کو بدترین ظلم اور ٹارچر کا سامنا کرنے کے لیے بدنام زمانہ گوانتانا موبے بھیجنے اور امریکا کو پورا پاکستان سونپ دینے کے شرمناک کاموں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس نظام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ قوانین کسی بھی وقت تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔ اس تبدیلی کا عوامی بہبود اور فلاح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ قوانین میں یہ ترامیم حکمرانوں کے مفاد میں کی جاتی ہیں۔ حکمران جب چاہیں قانون میں تر میم کرکے اپنے آپ کو تحفظ دے سکتے ہیں۔ اب سے دس برس قبل کیا جانے والا NRO اس کی مثال ہے جب پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے اشتراک حکومت کرنے کے لیے یہ قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس میں قتل کے مقدمات سے لے کر اربوں روپے کی لوٹ مار کو احتساب کے عمل سے باہر کھڑا کردیا گیا۔



محترمہ بے نظیر اور نواز شریف کو انتخابی عمل اور حکومت سے دور رکھنے کے لیے پرویز مشرف نے پولیٹیکل پارٹیز آرڈر کا چور دروازہ بنایا تھا جس کے تحت عدالتوں سے سزا پانے والا شخص پارلیمنٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہوگا۔ بے نظیر کو ان کی غیر موجودگی میں سزا سنائی گئی تھی اور نواز شریف تو پہلے ہی ہائی جیکر قرار پا چکے تھے۔ لہٰذا نواز شریف اور بے نظیر دونوں نہ پارلیمنٹ کے رکن بننے کے اہل تھے اور نہ اپنی جماعت کی سربراہی کرسکتے تھے۔ آئین میں ترمیم کرکے کسی بھی شخص کے تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی لگادی گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں یہ پابندیاں ختم کردی گئیں لیکن سزا کی صورت میں اپنی جماعت کی سربراہی نہ کرنے کی شق موجود رہی۔ نواز شریف کی دشمنی میں چودھری اعتزاز سینیٹ میں یہ ترمیم لائے کہ نااہل اور سزا یافتہ شخص پر کسی جماعت کا صدر بننے کی پابندی برقرار رکھی جائے۔ نواز شریف کے خیر خواہ انتخابات بل 2017 کی صورت میں سامنے آئے اور آئینی شقوں کو مکمل طور پر نواز شریف کے حق میں موڑ دیا۔
انسانوں اور حکمرانوں کی خواہشات کو مرکز ومحور بنانے والے اس نظام میں قانون سازی ایک مذاق ہے۔ عوام انصاف کے حصول کے لیے ساری زندگی دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ چودہ پندرہ سال بے گناہ جیلوں میں سڑ کر مرجاتے ہیں لیکن قانون حرکت میں نہیں آتا انہیں انصاف نہیں ملتا۔ اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل حکومت اور اپوزیشن کے کامل اتفاق اور اتحاد سے منٹوں میں پاس ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال کا مداوا صرف اسلام کے پاس ہے۔ قانون سازی کا منبع حکمرانوں کے مفادات، انسانی عقل اور اکثریت نہیں بلکہ قرآن وسنت ہیں۔ وحی الٰہی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جو اس کائنات اور انسانوں کا خالق ہے زندگی کے تمام مسائل اور ان کے حل کو جانتا ہے وہی انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہی اور صرف اور صرف وہی قانون سازی کا اختیار رکھتا ہے۔