وزیر خارجہ کو کتنا بولنا چاہیے 

482

zc_MFگوہر ایوب خان بہت تنگ تھے اور وزارت خارجہ کاقلم دان کسی دوسرے کے سپرد کرنے کے خواہاں تھے، وجہ ان کی زبان نہیں تھی بلکہ ان کا خیال تھا کہ ان کا انتخابی حلقہ متاثر ہورہا ہے خیر ان کی جگہ سرتاج عزیز کو وزیر خارجہ بنایا گیا تو وہ سینیٹر راجا ظفر الحق کے پاس آئے تاکہ رہنمائی لے سکیں راجا ظفر الحق نے انہیں ایک ہی بات کہی کہ وزیر خارجہ پریس کے ساتھ بات نہیں کرتا، سو سوال ہو ں تو ایک سوال کا جواب دیا جاتا ہے لیکن ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف، خاموش ہی نہیں ہوتے، اسی لیے چودھری نثار علی خان نے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور کہا کہ قومی اسمبلی مشترکہ طور پر دنیا کے پانچ بڑے فورمز کو خط لکھے اور روہنگیا میں ہونے والے مظالم کے خلاف پاکستان کی تشویش کو اجاگر کرے برکس کے معاملے پر انہیں تشویش ہوئی اور ان کی تشویش بجا ہے، چودھری نثار نے جائز سوال اٹھایا کہ ہمارے سفارت کار کیا کرتے رہے، ان سے جواب طلبی ضروری ہونی چاہیے‘ انہوں نے کہا کہ حیران کن عمل تھا کہ 15 تاریخ کو ڈرون حملہ ہوا اور روایتی مذمت بھی نہیں کی گئی اور جس دن حملہ ہوا وزیراعظم پاکستان امریکی سفیر سے ملے اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو ان سے ڈرون حملے سے متعلق پوچھتا، ڈیفنس کمیٹی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو مضبوط کرناہے تو پھر اس ایوان میں تمام مسائل زیر بحث لائے جائیں، ڈرون حملوں کے حوالے سے ہماری کئی قراردادیں موجود ہیں، بلوچستان کے حوالے سے ایوان کو بتایا گیا ہے کہ وہاں پر کیا صورتحال ہے،اس قسم کے کام کرکے ہماری توجہ برما اور کشمیر سے ہٹانے کی سازش کی جارہی ہے،ہمارے سفیر کو جنیوا میں شائع ہونے والے اشتہارات پر سوئٹزرلینڈ کی حکومت سے احتجاج کرنا ہوگا، جنیوا میں ہمارا سفیر کچھ نہیں کررہا۔



افغانستان میں جاری جنگ کو 16سال ہوچکے ہیں،جس میں 24 سو امریکی ہلاک اور ایک ٹریلین ڈالرسے بھی زیادہ اخراجات آ چکے ہیں۔اس کے باوجود افغانستان میں امن نام کی کوئی چیز نہیں۔۔۔ یعنی امریکا افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے۔ اب وہ اپنی شکست کا الزام پاکستان پر تھوپنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا گیا کہ اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کاساتھ دیتا رہے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔امریکی صدر پاکستان کا تعاون چاہتے ہیں اور دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، جس کے جواب میں پاکستان نے اپنا واضح موقف پیش کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے۔ پچھلے دنوں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جا وید باجوہ نے کہا تھاکہ امداد سے قطع نظر دنیا دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی کارروائیوں اور قربانیوں کا اعتراف کرے۔پاک فوج نے ہر رنگ ، ہر نسل کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی ہے،اس کے باوجود افغان حکومت ، بھارت اور امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔افغان مسئلے پر پاکستان کو دباؤ میں لانے اور اپنی بات منوانے کے لیے امریکا کی طرف سے یورپی دارالحکومتوں میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی سرگرمیوں اور پاکستان کے خلاف مذموم پروپیگنڈاے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں بسوں اور مختلف عوامی مقامات پر ’’کالعدم بلوچ لبریشن آرمی‘‘ کے ذریعے بلوچستان کی آزادی کی اشتہاری مہم شروع کرائی گئی ہے جس پر جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کے دفاتر میں پاکستان کے مستقل مندوب فرخ عامل نے سوئس حکومت منصب کو خط لکھ کر اس مذموم مہم کو پاکستان کی سالمیت و خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔



دفتر خارجہ کے مطابق 6 ستمبر کو سوئس حکام کو بھجوائے گئے مراسلے میں فرخ عامل کا کہنا تھا کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، جسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں نمائندگی حاصل ہے، لہٰذا سوئٹزرلینڈ میں ’’آزاد بلوچستان‘‘ کا نعرہ پاکستان کی سالمیت و خود مختاری پر حملہ ہے۔پاکستان کے خلاف سوئس سرزمین کا استعمال تشویش کا باعث ہے، جبکہ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں بی ایل اے کے کئی نمائندے دہشت گرد قرار دیے جا چکے ہیں اور یہ تنظیم بلوچستان میں سیکورٹی فورسز اور معصوم شہریوں پر حملوں میں ملوث ہے۔بی ایل اے کے دہشت گرد بچوں، خواتین، مسیحی برادری اور شیعہ آبادی کے قاتل ہیں ان کی جانب سے سوئس سرزمین کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ جنیوا میں اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز کے سامنے پاکستان دشمن اقدامات کا ہونا انتہائی تشویشناک ہے، لہٰذا سوئٹزرلینڈ حکومت پوری قوت اور سنجیدگی سے ان اشتہاروں کے معاملے سے نمٹے۔پاکستان کے لیے سوئٹزر لینڈ کے نامزد سفیر تھامس کولی کو دفتر خارجہ طلب کر کے ان سے جنیوا میں دہشت گرد تنظیم کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے آزاد بلوچستان کی تشہیری مہم روکنے اور بی ایل اے کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔پاکستان نے مطالبہ کیا کہ سوئٹزر لینڈ کسی خود مختار ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ جنیوا میں آزاد بلوچستان کے حوالے سے جو مہم چلائی جارہی ہے، اس کے خلاف پارلیمنٹ سے مذمتی قرارداد منظور کی جانی چاہیے۔



بلوچستان اسمبلی سے ایسی مذمتی قرارداد آنی چاہیے تھی ذاتیات سے بالاتر ہوکر پاکستان کے لیے بات کریں۔ جنیوا شہر کے حکام کو کالعدم بی ایل اے کے دہشت گردوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے جنیوا میں لگائے جانے والے پوسٹروں کے نیچے اس کے اسپانسر کا نام بھی لکھا ہوا تھا جو بلوچستان ہاؤس کا تھا ،لیکن بلوچستان ہاؤس کی ویب سائٹ پر اس پوسٹر مہم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلوچستان کی ویب سائٹ ’’بلوچستان ہاؤس ڈاٹ کام‘‘ پر اس تنظیم کو ایک تھنک ٹینک قرار دیا گیا ہے حال ہی میں ہربیار مری ، مہران مری اور برہمداغ بگٹی نے بھارتی شہریت کی درخواست دی ہے ان تینوں نے بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنے کاغذات بھارتی وزارت داخلہ کے دفتر میں جمع کروا دئے ہیں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ان کو یہ ٹاسک دیا کہ آپ کسی طرح بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کو پاکستان سے چھڑا لاؤ تو فوری طور پر بھارتی شہریت دے دی جائے گی۔ امریکن فرینڈز آف بلوچستان ، جو ایک خود ساختہ این جی او ہے،اس کے ذریعے اب یہ تینوں عالمی عدالت میں اپیل دائر کرنے لگے ہیں کہ کلبھوشن یادیو کو رہا کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان صرف پاکستان کے ساتھ اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے اور سی پیک کے منصوبوں کی مدد سے بلوچستان بھی جلد ترقی یافتہ علاقوں میں شمار ہونے لگے گا جس کے ثمرات عام بلوچوں تک پہنچیں گے، مگر علیحدگی پسند نہیں چاہتے کہ عام بلوچ ترقی کرے۔