نواز شریف کی آمد و رفت

445

 

نواز شریف کی آمد و رفت
نواز شریف کی آمد و رفت

نااہل وزیر اعظم نواز شریف لندن سے واپس آ کر گزشتہ منگل کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوگئے۔ اس پر کچھ ذرائع ابلاغ میں ان کی دلیری و جرأت پر خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ ایک اخبار نے تو اپنے اداریے میں یہ بھی لکھا کہ عوامی مینڈیٹ رکھنے والے محب وطن سیاست دان نامساعد حالات میں بھی اپنی قوم کے ساتھ اپنی سر زمین پر رہ کر ہی حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور نواز شریف نے ثابت کردیا کہ وہ ملک سے فرار نہیں ہوئے۔ یہ بات یہاں تک تو صحیح ہے کہ وہ واپس آ کر احتساب عدالت میں پیش ہوگئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خبر ہے کہ وہ آج جمعرات کو پھر لندن جارہے ہیں اور اس کے لیے انہوں نے دو پروازوں میں بکنگ کروالی ہے۔ لندن سے آنے والے اطلاعات کے مطابق بیگم کلثوم نواز کی طبیعت پھر بگڑ گئی اور انہیں دوبارہ اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ بیگم کلثوم کو جلد از جلد مکمل شفاء عطا کرے۔ ایسے میں نواز شریف کے لیے لندن جانے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ رہنے کا جواز تو ہے۔ لیکن جہاں تک نواز شریف کی پاکستان آمد اور عدالت میں حاضر ہونے کا تعلق ہے تو سیاسی مبصرین کے مطابق اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے لندن ویزا کی مدت ختم ہو رہی تھی اس میں توسیع کے لیے وہ اسلام آباد آئے تھے چنانچہ اس کے لیے وہ برطانوی سفارت خانے گئے اور توسیع کروالی۔ اس سے پہلے چونکہ نواز شریف کے پاس دبئی کا اقامہ تھا اس لیے وہیں سے کام ہو جاتاتھا مگر اب دبئی کا اقامہ ختم ہوگیا ہے اس لیے ویزا کی توسیع کے لیے پاکستان آنا ضروری تھا۔ لیکن اب ان کی دوبارہ لندن واپسی سے یہ بحث نئے سرے سے شروع ہوگی کہ وہ واپس آئیں گے یا نہیں ۔ ان پر پیر 2اکتوبر کو فرد جرم عاید ہوگی۔ لیکن خدا نہ کرے اگر ان کی اہلیہ کی طبیعت بگڑ گئی تووہ نہیں آسکیں گے۔ وہ جس کروفر سے احتساب عدالت میں پیش ہوئے، وہ منظر بھی دیدنی تھا۔ انہیں پوری طرح سرکاری پروٹوکول دیا گیا اور ایسا لگتا تھا کہ وہ اب بھی وزیر اعظم ہیں ۔ ان کے آگے پیچھے 44قیمتی گاڑیاں تھیں اور فضا میں ہیلی کاپٹر بھی گردش کررہے تھے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ نواز شریف کے بنائے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تو علی اعلان کہتے ہیں کہ میرے وزیر اعظم نواز شریف ہیں۔

پھر وہ خود کس کے وزیر اعظم ہیں ؟ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بڑی معصومیت سے کہتے ہیں کہ میرے منہ سے اب بھی وزیر اعظم نواز شریف ہی نکلتا ہے۔ شاید عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ان لوگوں تک نہیں پہنچایا وہ بھی عدالتی فیصلوں سے انحراف کرنے والوں میں سرفہرست ہیں ۔ نااہل قرار دیے گئے شخص کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لیے وزرا ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ احتساب عدالت میں صرف ساڑھے پانچ منٹ کی رونمائی پر عوام کے لاکھوں یا شاید کروڑوں روپے پھونک دیے گئے۔ اس کا حساب کون لے گا کہ یہ تو معمول بن چکا ہے اور خود عوام کو بھی پتا نہیں چلتا کہ ان کی خون پسینے کی کمائی کیسے لٹ رہی ہے۔ دعوے یہ کہ سب کچھ عوام کے لیے ہو رہا ہے۔ گمان تھا کہ میاں نواز شریف لندن کی ٹھنڈی فضاؤں سے واپس آکر عدالتوں کے خلاف اعتدال کا مظاہرہ کریں گے اور یہ بھی سیکھ لیں گے کہ لندن کی سڑکوں پر بغیر پروٹوکول کے آزادی سے گھومنے والے کو اپنے ملک میں شاہانہ پروٹوکول زیب نہیں دیتا لیکن وہ ابھی تک ذہنی طور پر وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور ن لیگ کی حکومت بھی انہیں یہی باور کرارہی ہے۔ اپنے خلاف فیصلے پر وہ عدالتوں کے خلاف پرانا راگ ہی الاپتے ہوئے آئے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ اور یہ کہ عدالت نے ٹھان لی تھی کہ مجھے نا اہل کرنا ہی ہے سو اقامے کی آڑ میں نا اہل کردیا گیا جب کہ مقدمہ تو پاناما کا تھا۔ انہوں نے عدالت میں پیشی کے بعد کہا کہ ایسے فیصلوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جن کے ذکر پر ندامت ہوتی ہے۔ یقیناًایسا ہی ہے لیکن ایسے کتنے ہی حکمران بھی تو ہیں جن کی حرکتوں پر ندامت ہوتی ہے۔ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی اور پارٹی سے مخلص چودھری نثار صاحب تو بار بار کہہ چکے ہیں کہ مقتدر اداروں سے تصادم مول نہ لیں لیکن میاں صاحب کسی اور موڈ میں ہیں حالاں کہ خود کہا ہے کہ ’’ ڈر ہے پاکستان کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے‘‘۔ پریس کانفرنس میں فرمایا کہ عوام کے ووٹ کے تقدس کا مقدمہ لڑنے کا تہیہ کرلیا ۔ اچھی بات ہے لیکن پہلے اپنا مقدمہ تو ڈھنگ سے لڑ لیں۔ اب ان کے خلاف پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی تحقیقات بھی شروع ہوگئی ہے۔احتساب عدالت نے نواز شریف کے بچوں اور داماد کے وارنٹ بھی جاری کردیے ہیں ان میں مریم نواز بھی شامل ہیں جو حال ہی میں اپنی والدہ کی طرف سے این اے 120کا معرکہ جیتی ہیں ۔ ان سب کو بھی 2اکتوبر کو پیشی کا حکم دیا گیا ہے لیکن ان سب کے پاس کلثوم نواز کی علالت کا عذر ہے تاہم نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ان کے خاندان کا ہرفرد آ کر مقدمات کا سامنا کرے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے شریف خاندان کو سیاسی فائدہ پہنچے گا ۔ لیکن اس بار کسی پیشی کے موقع پر لاؤ لشکر کا اہتمام کر کے کرفیو کا سماں پیدا کرنے



سے گریز کیا جائے ورنہ خود کو عوام کا نمائندہ نہ کہا جائے۔
سائبر کرائمز کا خطرہ
دنیا بھر میں سائبر کرائمز کے ذریعے تباہی پھیلانے والوں کی نظریں اب پاکستان پر ٹکی ہوئی ہیں۔ معروف ڈیجیٹل سیکورٹی کمپنی ’’ سیمیٹک‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اہم اداروں کی سائبر جاسوسی کی جارہی ہے جو منظم انداز میں کسی تیسرے ملک کی کارستانی ہے۔ رپورٹ میں اس ملک کا نام نہیں لیا گیا اور نہ ہی اس بات کی وضاحت ہے کہ اس حملے کا شکار ہونے والے ادارے کس نوعیت کے ہیں۔ لیکن یہ جاننا کچھ مشکل بھی نہیں ہے کیوں کہ اس طرح کا واقعہ یوم آزادی پر بھی پیش آچکا ہے جب بھارتی ہیکرز نے پاکستان کے محکمہ دفاع، قانون اور دیگر اہم سرکاری اداروں کی ویب سائٹس کو ہیک کر کے ان پر بھارتی فوج کی تصاویر اور ترنگا لگا دیا تھا۔ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے سرکاری ادارے کس قدر غیر محفوظ ہیں ۔ دوسری طرف انٹیلی جنس کے ادارے جامعہ کراچی اور این ای ڈی یونیورسٹی سمیت دیگر درس گاہوں کے طلبہ کا ریکارڈ لینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ سیکورٹی اداروں کو اپنی فکر کرنی چاہیے کیوں کہ اگر وہ خود محفوظ نہیں رہے تو یہ دشمن کو ریکارڈ تک رسائی دینے کے مترادف ہوگا۔ ماضی میں مدارس کا ریکارڈ بھی اسی طرح جمع کیا گیا تھا جس کے بعد طلبہ کے اغوا اور ٹارگٹ کلنگ کے مناظر دیکھنے میں آئے تھے اور بعید از قیاس نہیں کہ عصری تعلیم گاہوں کے ساتھ بھی اسی تاریخ کو دہرایا جائے۔ انصار الشریعہ نامی تنظیم کی آڑ میں اس کی ریہرسل بھی ہوگئی ہے۔ نیز اس سے غیر ملکی ایجنسیز کے لیے بھی آسانی ہوجائے گی کہ وہ ذہین طلبہ کو پرکشش آفرز کے ذریعے ملک سے باہر لے جاسکیں گے اور ملک کارآمد افراد محروم ہو جائے گا۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس معاملے میں مداخلت کر کے تمام جامعات کو اس طرح کا ریکارڈ فراہم کرنے سے منع کیا ہے جو کہ اچھا اقدام ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ آنکھیں کھلی رکھیں۔ جسارت ہی کی رپورٹ کے مطابق بحریہ یونیورسٹی کی طالبات کے فارم تنور پر پائے گئے جن میں روٹیاں فروخت کی جارہی تھیں۔ اس طرح کی غفلت سے گریز کیا جائے۔ اس کے علاوہ جن کمپیوٹرز میں ادارے کا ریکارڈ رکھا جائے انہیں قطعاً نیٹ سے منسلک نہ کیا جائے کیوں کہ اس طرح ہیکرز کے لیے کمپیوٹر میں گھسنا آسان ہو جاتا ہے۔