قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جن چار مہینوں کو ’’حرمت والے مہینے‘‘ قرار دیا ہے، مُحرم الحرام ان میں سے ایک ہے اور خاتم النبین سیدنا محمدؐ نے اس ماہ کو اللہ کا مہینہ کہا ہے، یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس سے اسلامی قمری سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس مہینے میں قبل از اسلام اور اسلامی تاریخ کے اہم واقعات رونما ہوئے جن کی تفصیلات احادیث و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں، لیکن اس مہینے کو زیادہ تر خلیفہ دوم عمر فاروقؓ اور نواسۂ رسولؐ امام حسینؓ کی شہادت کے المیے سے یاد کیا جاتا ہے۔ عمر فاروقؓ یکم محرم الحرام کو جب کہ امام حسینؓ 10 محرم الحرام کو شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئے۔ اسلام میں شہادت ایک اعلیٰ اعزاز ہے جو ہمیں شہدا اسلام کی حق و سچائی کے لیے دی گئی قربانی سے سبق حاصل کرنے اور حق کے راستے میں ان کی پیروی کرنے کا درس دیتا ہے اور سچائی و حق کے راستے میں قربانی دینے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ہمیں اس مہینے کو اسی جذبہ حق و صداقت اور اسلامی اخوت و باہمی جذبہ خیر خواہی کے ساتھ منانا چاہیے جو کہ ان عظیم شہداء اسلام کے مشن کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے کچھ عرصے سے یہ جذبہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور اب اس کے آغاز سے قبل ہی پورے ملک میں ایک ہنگامی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ حکومتی سطح پر سیکورٹی پلان ترتیب دیے جاتے ہیں، صوبائی گورنرز، وزیراعلیٰ و دیگر اعلیٰ سطح کے اجلاس بلائے جاتے ہیں تا کہ اس ماہ میں امن وامان برقرار رہے، ملکی فضا ایک نامعلوم خوف کی کیفیت میں ہوتی ہے جو کہ 10 محرم الحرام تک برقرار رہتی ہے۔ ایسے حالات و کیفیات کو عالمی تناظر سے الگ نہیں کیا جانا چاہیے جو کہ آج کل ہر اسلامی ملک خصوصاً شام، مصر و دیگر خلیجی ممالک میں ہیں جو کہ مسلم ممالک میں شیعہ سُنی و دیگر تنازعات کو پیدا کرکے وحدت اُمت کو تباہ کرنے کی عالمی سازش کا حصہ ہے، پاکستان بھی دہشت گردی کی اسی سازش کا شکار ہے جس سے ہماری فوج آپریشن ردالفساد کے ذریعے نبرآزما ہے اور قومی سطح پر نیشنل ایکشن پلان بھی اس کا حصہ ہے جس میں فرقہ واریت و انتہا پسندی کے خاتمے کا بھی اعادہ کیا گیا ہے جو کہ ملک کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ قیام امن کے لیے سیاسی مفاد و مصلحتوں کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے کی پالیسی اختیار کرے تاکہ قیام امن کے لیے جو سازگار فضا بن رہی ہے اس کو نقصان نہ پہنچے ورنہ دشمن ہمارے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی بھی قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ محرم الحرام کے مہینے میں ایسے عناصر خصوصی طور پر سرگرم ہوجاتے ہیں ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ محرم الحرام میں پیدا ہونے والے مسائل واختلافات کو باہمی گفت و شنید سے حل کرنا حکومت و دینی جماعتوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ اگرچہ اس مقصد کے حصول کے لیے گورنرز، وزراء اعلیٰ و دیگر اعلیٰ سطح کے اجلاس بلائے جاتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہ اس مقصد کے لیے ناکافی اور محض خانہ پُری تک محدود ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے محض محرم الحرام و ربیع الاوّل تک ایسے اجلاسوں کو محدود نہ کرے بلکہ تمام مکاتب فکر کے علما، دینی اُمور کے ماہر دانشور و اہل علم تک یہ دائرہ وسیع کرے۔ جبکہ گورنر ہاؤس و وزیراعلیٰ ہاؤس کے اجلاسوں میں پُرانی فہرست کے مطابق چند مساجد ومدارس کے افراد تک ہی یہ اجلاس محدود ہیں اور ان اجلاسوں میں متعدد مرتبہ تجاویز وضابطہ اخلاق سے متعلق راقم الحروف سمیت دیگر نے حکومت کو دی ہیں
لیکن آج تک ان اجلاسوں کے بعد اس پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی جس سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اسی سلسلے میں سنجیدہ کسی طریقہ کار کو اپنانے میں کردار ادا کرنے میں پیش رفت ضروری نہیں سمجھتی حالانکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سابقہ اجلاسوں کی رپورٹوں کا تجزیہ کرکے اور تمام قابل عمل تجاویز کو ترتیب دے کر علما کے اجلاس میں مستقل بنیادوں پر ایک قومی ضابطہ اخلاق ترتیب دے جو محرم الحرام و ربیع الاوّل و دیگر پیش آنے والے مسائل و تنازعات کو حل کرسکے، اس کے لیے علما کرام و مذہبی تنظیموں کو خواہ ان کا تعلق کسی عقیدہ و مسلک سے ہو انہیں اس ماہ حرمت کے حوالے سے خصوصی کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس ماہ کی حرمت کو برقرار رکھنا علما کرام کی ذمے داری ہے، انہیں چاہیے کہ محراب و منبر کو فرقہ وارانہ تصاویر سے آلودہ نہ کریں اور لاؤڈ اسپیکر کو مذہبی منافرت و انتہا پسندی سے پاک رکھیں۔ اسلامی اخوت و دینی اتحاد کی فضا پیدا کریں کیونکہ اس ماہ کی حرمت کا اعلان اللہ اور اس کے رسولؐ نے کیا ہے۔ ہمیں ایک اُمتی و سچے مسلمان کی حیثیت سے اللہ رسولؐ کے اس اعلان حرمت کا پاس رکھنا ہمارا دینی فرض ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت و قیام امن کے لیے مسلک و فقہ کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلام کے پیغام امن و سلامتی کو فروغ دیں کیوں کہ ہر مسلک وفقہ باہمی اتحاد و یگانگت کا درس دیتی ہے۔ ہمیں فروعی اور ہمارے اپنے پیدا کردہ مسائل کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے اور باہمی اُلفت و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے قربانی و ایثار کے جذبہ سے کام لینا چاہیے جیسا کہ مختلف مکاتب فکر کے اکابر علما کرام نے قیام پاکستان کے بعد فرقہ وارانہ و فقہی اختلافات کے حل کے لیے ’22 متفقہ نکات‘ جیسی اہم دستاویز حکومت وقت کو پیش کرکے ثابت کردیا تھا کہ مختلف مسالک و فقہ رکھنے والے اسلام کے نفاذ کے لیے متحد ہیں، یہی جذبہ آج بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم آج بھی دہشت گردی و فرقہ واریت کے خلاف متحد ہیں اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔