تحریک انصاف کے موقف میں تبدیلی 

336

Edarti LOHپاکستان تحریک انصاف کی کشتی اس وقت گہرے پانیوں میں ہچکولے کھا رہی ہے جس کی بڑی ذمے داری کشتی کے نا خدا عمران خان پر عاید ہوتی ہے ۔ ایک طرف تو وہ خود مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے عدالت کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔د وسری طرف انہوں نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو تبدیل کرنے کی مہم شروع کر دی ہے اور چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے بجائے وہ خود یا شاہ محمود قریشی قائد حزب اختلاف بن جائیں ۔ شاہ محمود قریشی چند برس پہلے تک پیپلز پارٹی کی حکومت میں اور اس کے وزیر خارجہ تھے اب تحریک انصاف میں ہیں۔ عمران خان نے سیاسی میدان میں جس تیزی سے مقبولیت حاصل کی تھی اب اس میں کمی آتی جار ہی ہے ۔ اس کی وجہ ان کے کئی فیصلے ہیں ۔ جہاں تک قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کا تعلق ہے تو چند ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں ان کے نتائج کا انتظار کر لیا جاتا اور قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن واضح ہونے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جاتا لیکن وہ بہت عجلت میں ہیں ۔ گزشتہ بدھ کو خود پارٹی کے ارکان شاہ محمود قریشی یا عمران خان کو قائد حزب اختلاف نامزد کرنے کے مسئلے پر تقسیم ہو گئے اور خاص طور پر شاہ محمود قریشی کے نام پر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ۔ تحریک انصاف کی اتحادی مسلم لیگ ق نے بھی یہ کہہ کر ساتھ دینے سے انکار کر دیا کہ اسے اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔



جہاں تک دوسری جماعتوں کو ساتھ لینے یا اعتماد کرنے کا تعلق ہے تو تحریک انصاف نے واضح کر دیا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کسی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا جائے گا ۔ ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان اس فیصلے سے مستثنا ہو جس سے آج کل تحریک انصاف کی گاڑھی چھن رہی ہے ۔ یہ وہی ایم کیو ایم ہے جس کو عمران خان قابل گردن زدنی قرار دیتے تھے ۔ لیکن اس کو ملا کر بھی تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی تعداد اتنی نہیں ہو گی کہ قومی اسمبلی میں تبدیلی لا سکے ۔ اسی کے ساتھ عمران خان قبل از وقت عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ انہیں کون سمجھائے کہ انتخابات ہو گئے تو اسمبلی میں پارٹیوں کی پوزیشن تبدیل ہو سکتی ہے اور اگر عمران خان کو یہ گمان ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف اکثریت میں آ جائے گی اور وہ وزیر اعظم بن جائیں گے تو قائد حزب اختلاف کی تبدیلی بے معنی ہو جائے گی ۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ قائد حزب اختلاف ہی نہیں نیب چیئر مین سمیت دیگر اہم مناصب پر بھی ان کی پسند کے لوگ فائز ہوں ۔ فی الحال تو قبل از وقت انتخابات اور قائد حزب اختلاف کی تبدیلی دونوں خواہشیں ہی پوری ہوتی نظر نہیں آ رہیں ۔ بہتر ہے کہ عمران خان صوبہ خیبر پختونخوا اور اپنی پارٹی پر توجہ مرکوز کریں ۔ گزشتہ ہفتہ تک تحریک انصاف کے ارکان اس پر متفق تھے کہ خورشید شاہ کی جگہ شاہ محمود قریشی کو لایا جائے اور اس کے لیے مہم کا آغاز بھی کر دیا تھا لیکن بدھ کے اجلاس میں کہا گیا کہ ابھی کسی کو نامزد نہیں کیا جا رہا ۔ یہ موقف میں واضح تبدیلی ہے ۔ عمران خان کو اپنے ارکان کے موقف میں اس تبدیلی کی وجہ بھی معلوم کرنی چاہیے جس سے پارٹی میں پھوٹ پڑنے کا اشارہ ملتا ہے ۔