قومی حکومت

556

zc_Nasir

خادم اعلیٰ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ارکان پنجاب اسمبلی کو فوج کے خلاف بیان بازی سے اجتناب برتنے کی ہدایت کی ہے مگر جو در آمد ہدایات پر عمل پیرا ہونے میں سیاسی بقا دیکھتے ہیں وہ فوج کی مخالفت میں نہ بولیں تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتا ہے، اپھارہ سر پے چڑھ جاتا ہے اور در آمد ہدایات کا جادو بھی سرچڑھ کر بولنے لگتا ہے۔ جب تک نواز لیگ اور زرداری لیگ کی قیادت پر پابندی نہیں لگتی فوج اور عدلیہ ان کے نشانے کی زد میں رہے گی۔ نواز لیگ کو جلاو طنی کا دکھ ہے اور اب تو اس دکھ میں نا اہلی کی تذلیل بھی شامل ہوچکی ہے۔



سابق وزیراعظم میاں نواز شریف عوام کو یہ باور کرانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ان پر الزامات تو ملکی دولت کو لوٹنے کا تھا، پاناما کیس میں انتہائی سنگین قسم کے الزامات لگائے گئے مگر عدالت عظمیٰ کو کچھ نہ ملا تو اقامہ کے تحت نکال دیا گیا۔ ان کی اس دلیل میں خاصا وزن ہے کیونکہ کئی دیگر سیاست دانوں کے پاس بھی اقامہ شریف موجود ہے مگر سزا نواز شریف کو دی گئی اور دیگر اقامے کے حامل سیاست دانوں کو اقتدار کے ہنڈولے میں جھولے مست ہاتھی کی طرح جھومنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ۔ یہ دہرا معیار کیوں؟ مشرقی پاکستان بنگلا دیش اسی دہرے معیار کی بنیاد پر بنا۔
سابق وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ملک سنگین خطرات میں گھرا ہوا ہے، اداروں سے ٹکراؤ نقصان دہ ہوگا فوج اور عدلیہ پر الزام تراشی ملکی سلامتی اور جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
بعض سیاست دان اور سیاسی تجزیہ نگار تیسری قوت کی چاپ سن رہے ہیں مگر ان کے کان بج رہے ہیں، اب مارشل لا کی کوئی گنجائش نہیں۔ فوج سیاست کی اونچ نیچ سے واقف ہوچکی ہے، وہ اقتدار کے ایوان کی طرف مارچ نہیں کرے گی جو کچھ کرنا ہے مارچ کے بعد کرنا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ ملکی سلامتی کے لیے کسی بھی وقت کسی مناسب اور ضروری اقدامات سے گریز نہیں کرے گی۔ غالباً فوج حکومت کی مدت پوری ہونے کی منتظر ہے، شنید ہے کہ ایک معاہدے کے تحت زرداری حکومت کی مدت پوری کرائی گئی تھی اور اسی معاہدے کے تحت نواز حکومت کو بھی نوازا جارہاہے۔ جوں ہی نگران حکومت کا اعلان ہوگا فوج قومی حکومت تشکیل دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گی اور اس کا جواز یہ ہوگا کہ فوج نے الیکشن کراتی ہے تو نگران حکومت بھی وہی بنائے گی۔



پیر پگارا زندہ ہوتے تو جھاڑو پھرنے کی پیش گوئی کرتے، کوئی پیش گوئی کرے یا نہ کرے جھاڑو تو پھرے گا اگر فوج نے نگران حکومت کے بجائے قومی حکومت تشکیل دی تو ایسے افراد پر مشتمل ہوگی جو ذاتی مفادات اور تحفظات پر قومی حکومت اور ملکی تحفظات کو فوقیت دیں گے، کسی ان پڑھ کو وزیر تعلیم بنایا جائے گا، نہ کسی بیمار کو کابینہ کا رکن بنایا جائے گا، قومی اور ملکی خدمات کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا جائے گا جو اچھے اچھے شعبے میں مہارت کے حامل ہوں گے۔
ابن خلدون نے کہا تھا جو قوم تاجروں کو حکمرانی سونپ دیتی ہے تباہ ہوجاتی ہے۔ تاجروں کی نفسیات اور ان کا نصب العین زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے، ملکی اور قومی حکومت ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے، المیہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سیاست دانوں کے بہکاوے میں آکر سیانوں کے اقوال بھی بھول بیٹھے ہیں۔ سیانوں نے کہا تھا راجا بیوپاری ہو تو رعایا بھکاری بن جاتی ہے۔ آج مہنگائی اور بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ تاجر ہم پر مسلط ہیں جب تک یہ تسلط برقرار رہے گا قوم خوش حال نہیں ہوسکتی ملک مستحکم نہیں ہوسکتا۔