میڈ اِن امریکا۔۔۔ اسلام 

799

مظفر ربانی

ستمبر 2017 میں عبدالغفار عزیز کا امریکی میڈ اسلام کا تجزیہ پیش کیا گیا جس کی ابتداء انہوں نے تیونس کے سابق ڈکٹیٹر حبیب بورقیبہ کے دور سے کی ہے اور اس کے اسلام مخالف اقدامات بلکہ ترمیمات کا بھی ذکر کیا ہے پھر ایک طویل فہرست ہے جس میں حبیب بورقیبہ کے جانشینوں سے لیکر مصر کے کچھ دینی لادینی فوجی عناصر کے اسلام کے محکمات سے صَرف نظر کرتے ہوئے حکمرانوں کے ترتیب شدہ شرعی قوانین کو فتوے کی مہر ثبت کرنے والوں کا بھی ذکر ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکا جس نہج کا اسلام دنیا میں دیکھنا چاہتا ہے وہ اسلام تو نہیں ہو سکتا کچھ اور ہی ہو سکتا ہے اگر امریکا اور مغرب یہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص صرف کلمہ پڑھ لے لیکن کام وہ سارے کرے جو مغربی اور امریکی معاشرے میں ہوتے ہیں تو یہ کفر و اسلام کے درمیان کسی چیز کا پیرو کار تو ہو سکتا ہے مگر اسلام کا نہیں۔ اسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں سے تو تاریخ بھری پڑی ہے۔ اور ان ریشہ دوانیوں کے خار سے مزید خار ہی پیدا ہوئے امام حسینؓ کا یزید کی ملوکیت کو ماننے سے انکار ہو یا امالک کا قرآن کو خلق مانے سے انکار کا معاملہ، تاریخ ایسے ائمہ کو بھی اپنی آغوش میں رکھتی ہے جنہوں نے ایک ایک مسئلے پر بد ترین ظلم و ستم سہنا گوارا کر لیا مگر اسلام کے کسی حکم کو حاکم وقت کے تشکیل کردہ معنی پہنانے کو گوارا نہ کیا۔اسلام کی پر شکوہ عمارت کو ڈھانے کی کوشش کی گئی مگر یہ مخلص علماء کرام اور مجتہدین، مفکرین و مفسرین کے جرات مندانہ موقف کا ثمر ہے کہ ہم کو آج بھی اسلام اپنی اصلی حالت میں نظر آتا ہے اور اگر کوئی اسلام کو قیامت تک کے لیے قابل عمل دین ماننے کو تیار ہو تو اس کو کچھ دشواری پیش نہیں آئے گی۔

مغلوں نے اسلام کی خدمت کا جو سنہری موقع گنوا دیا اس سے اسلام کی اشاعت وتبلیغ اور ترویج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سب سے بڑھ کر کفر کی طاقتوں کو یہ احساس ہو گیا کہ اب مسلمان جہاں بانی کے بجائے مال پانی کے چکر میں پڑ گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ کفر کی طاقتوں نے سازش کے تحت سب سے پہلے اسپین میں قائم آٹھ سو سالہ مسلم اقتدار کو ختم کیا پھر جمہوری کوڑا چلاتے ہوئے ترکستان سے خلافت کا آخری چراغ بھی 1923میں گل کر دیا اور اسلام سے سخت عداوت رکھنے والے نام نہاد مسلم حکمران کمال اتاترک کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا لیکن اس کا سورج بھی جلد ہی مغرب کے پانیوں میں ڈوب گیا اور اب ترکی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی طرف بڑھ رہا ہے اور عالم اسلام کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشی قیادت کرنے کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مغلوں کا ذکر اس لیے چھیڑا گیا کہ اسپین کی مسلم حکومت کو ختم کر کے کفر کی طاقتوں نے ہندوستان کا رخ کیا مبادہ وہاں کوئی ایسی حکومت قائم ہو جائے جو اسلام کی ترویج تبلیغ اور اشاعت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے، اگر یہ کہا جائے کہ انگریز ہندوستان میں کیوں آتے تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ وہ یہاں مسلمانوں کی اسلام سے رغبت اور اسلام کی بے پناہ پزیرائی تھی جس کو دیکھ کر نچلی ذات کے ہندؤں اور دیگر مذاہب کے لوگ اسلام کی طرف راغب ہو رہے تھے،1200 سال میں اسلام نے ہندوستان میں جس تیزی کے ساتھ قدم جمائے وہ اپنی مثال آپ ہے یہی نہیں بلکہ کم تعداد میں ہونے کے باوجود سات سو سال حکمرانی بھی کرگئے۔کیا تاریخ اس حقیقت سے روگردانی کر سکتی ہے کہ انگریز نے یہاں قدم جماتے ہی سب سے پہلے اسلام کو ختم کرنے کی کوشش کی اور مسلمان علما کو تختۂ مشق بنائے رکھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز کی چالوں اور سازشوں سے اسلام کو برصغیر میں بہت نقصان پہنچا مگر اللہ تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کرنے کے لیے اکیلا ہی کافی ہے ۔ وقتاً فوقتاً ایسے جید علماء اس سرزمین پر پیدا ہوتے رہے جنہوں نے اسلام کی نہ صرف مجتہد کی حیثیت سے خدمت کی بلکہ انگریز کی چالوں سے بھی مسلمانانِ ہند کو بیدار کیا ان علماء کرام کے ساتھ ایسے شاعر، مصنف، محقق، تاریخ دان پیدا کیے جنہوں نے انگریز کی چالبازیوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ برصغیر میں انگریز کے ٹمٹماتے چراغ کو آخری پھونک مارنے والوں میں سید مودودی علیہ رحمہ اور علامہ اقبال ؒ نے اہم کردا ر ادا کیا یہی وجہ ہے کہ انگریز کے کاسہ لیس ان دونوں شخصیات کو حدف تنقید بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
آج بھی جو امریکیوں نے اپنے نشان امتیاز یعنی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو منہدم کیا تو اس کی بنیادی وجہ بھی اسلام دشمنی ہی تھی لیکن سترہ سال تک افغانستان کے پہاڑوں سے سر ٹکرا ٹکرا کر اور چکرا چکرا کر گرتا پڑتا نکل بھاگا جس کا اسلام کو یہ فائدہ پہنچا کہ امریکی اور مغربی عوام اپنے دانشوروں سے یہ سوال کرتے نظر آئے کہ آخر تم لوگ اسلام کے پیچھے کیوں ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہو پھر انہوں نے قرآن سے رجوع کیا پھر یہ منظر چشم فلک نے دیکھا کہ جتنی تیزی کے ساتھ اسلام امریکا اور یورپ میں پھیلا اتنا گزشتہ تیس سال میں بھی نہیں پھیلا تھا۔ اب امریکا اپنے اتحادیوں سمیت زخمی درندے کی طرح اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف نئی نئی چالیں چل رہا ہے تاکہ جو رسوائی ہزیمت اور بدنامی افغانستان کے مجاہدین کے ہاتھوں اس کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کی طرح اس کی بد نمائی میں اضافہ کر رہی ہے کسی طرح اس بدنمائی کو اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے دھو سکے۔ ابھی تو امریکا نے شام میں کشت وخون کا بازار گرم کر کے اور مصر میں ایک اسلامی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر عرب بہار کی شمع فروزاں کو وقتی طور پر مدھم کر دیا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب یہی عرب بہار دوبارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوگی اور کفر کی تما م تر سازشیں خود اس کو منہ چڑائیں گی۔