رینجرز نے بغیر بلائے احاطہ عدالت کا محاصرہ کرلیا اور وفاقی وزیر داخلہ سمیت دیگر وزرا ہی نہیں صحافیوں کو بھی اندر جانے سے روک دیا۔ تحقیق یہ ہو رہی ہے کہ رینجرز کو کس نے بلایا۔ لیکن اس سے زیادہ خطرناک بات وزرا کا ردعمل ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہوگئی ہے۔ مبصرین اس تبصرے کو فوج کے خلاف قرار دے رہے ہیں کہ فوج نے اپنی ریاست قائم کرلی ہے اور رینجرز نے وفاقی وزیر داخلہ کے ماتحت ہونے کے باوجود ان ہی کو روک دیا۔ ایک تبصرہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی طرف سے آیا ہے کہ پاکستان بنانا اسٹیٹ بن گیا ہے۔ یہ بہت خطرناک اور بے ہودہ تبصرہ ہے۔ رانا صاحب کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن پاکستان کو بنانا اسٹیٹ قرار دینے پر ان سے سخت باز پرس کی جانی چاہیے ورنہ یہ حکومت کا موقف سمجھا جائے گا۔آج کل جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اپوزیشن کا اتحاد تھا لیکن جب سے پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کی مہم چلائی ہے اس وقت سے اپوزیشن میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں ۔ حکومت بڑی آسانی سے بل منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی اور حزب اختلاف آپس کے اختلافات میں پڑی ہوئی ہے۔ اگرچہ حکمران لیگ میں بھی انتشار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن شاید اسی کو قابو میں رکھنے کے لیے میاں نواز شریف کو پارٹی سربراہ بنایا جارہا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کمزور، حکمران پارٹی کمزور، حزب اختلاف منتشر عدالتیں بے بس ، میڈیا بے مہار، تو پھر قوم کیا کرے گی ہر طرف انتشار ہی ہوگا۔ عدالتوں کی بے بسی کی بات یوں ہی نہیں کہی گئی ہے بلکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ جھوٹی گواہی کے باعث ملزمان کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے۔
سچے گواہ پیش کیے بغیر نظام عدل نہیں چل سکتا۔ عدالتی نظام کی بے بسی کا اس سے بڑا اظہار کیا ہوگا۔ اس سے قبل بھی یہ تبصرہ عدالت ہی کی جانب سے آچکا ہے کہ عدالت بے بس ہے۔ اگر یہ صورت برقرار رہی تو قوم کو کسی آفت کا انتظار ہی کرنا چاہیے۔ عوام کو تو پانچ سال میں ایک مرتبہ کچھ کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن ہر ایسے موقع پر ایسا انتشار پھیلایا جاتا ہے کہ لوگوں کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس وقت میڈیا جس طرف چاہتا ہے لوگوں کو ہانکتا ہے۔ اسی میڈیا نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی کہ کسی نا اہل شخص کو سیاسی پارٹی کا سربراہ بنانے کی شق کے خلاف ترمیم کا نوٹس صرف جماعت اسلامی نے دیا اور دو بڑی جماعتیں صرف میڈیا پر اس کی مخالفت کرتی رہیں۔ جب الیکشن آئے گا تو میڈیا ان ہی جماعتوں کو برا بنا کر پیش کرے گا ۔ اور عوام کے لیے انتخاب ان ہی دو تین جماعتوں میں سے ایک رہ جائے گا۔ لہٰذا عوام اگر اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کریں تو کسی تبدیلی کی جانب سفر شروع ہوئے ہیں پانچ سال تو لگ ہی جائیں گے۔ اس وقت جو صف بندی ہے وہ بظاہر میاں نواز شریف کے حامیوں اور مخالفین کی ہے لیکن حقیقتاً ن لیگ کے اندر بھی دراڑیں ہیں ، پی ٹی آئی بھی مضبوط نہیں رہی اورپیپلز پارٹی بھی پر اعتماد نہیں اسی لیے وہ بھی کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے کو تیار نہیں ، نہ ہی انتخابات کے اعلان کی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔ عمران خان کی پارٹی خود تضادات کا شکار ہے ایک جانب نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے اور دوسری جانب قائد حزب اختلاف تبدیل کرنے پر مصر ہے۔ اگر نئے انتخابات کرانے ہیں تو اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو دباؤ میں لا کر نگران حکومت قائم کروادی جائے تاکہ وہ انتخابات منعقد کرائے۔ لیکن یہ سب کرنے کے لیے سب کو کسی نکتے پر متفق اور متحد ہونا پڑے گا۔