کئی عجیب و غریب پہلو ہیں اس نو زائیدہ جماعت کے۔ ابھی صرف چار سال ہوئے ہیں اس جماعت کو قائم ہوئے اور گزشتہ مارچ میں اسے علاقائی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دوسری نازی اور کٹر قوم پرست جماعتوں کی طرح اس کے حامیوں میں اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل نہیں بلکہ اس جماعت کو بڑی حد تک خوشحال طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ چانسلر مرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے سابق ممتاز رہنما الیگزنڈر گاؤلینڈ ہیں جو وکیل اور صحافی ہیں۔ ان کے ساتھیوں میں زیادہ تر اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافی، پی ایچ ڈی، پروفیسر اور بزنس طبقہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز افراد شامل ہیں۔ اسی بناء پر شروع شروع میں یہ جماعت، پروفیسر پارٹی کہلاتی تھی۔ لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ ماہر معاشیات، صنعت اور تجارت سے تعلق رکھنے والے حلقوں کی یہ جماعت، اسلام دشمن جماعت کیسے بن گئی۔
گزشتہ مارچ کے علاقائی انتخابات میں کامیابی کے بعد اچانک اس پارٹی نے اپنے منشور میں جلی حرفوں میں کہا کہ ’’اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق نہیں‘‘ اور ہم جرمنی میں شریعہ کا نفاذ قبول نہیں کریں گے۔ جرمنی کے مسلم رہنماؤں نے جب اس مسئلہ پر AfDسے گفتگو کی تو یہ گفتگو ناکام رہی کیونکہ مسلم رہنماؤں نے اس جماعت کو نازی پارٹی قرار دینے پر اصرار کیا۔ وجہ یہ تھی کہ پارٹی کے قائد الیگزنڈر گاؤلینڈ اپنے اس موقف پر اٹل تھے کہ جرمنی کو دو عالم گیر جنگوں میں اپنی فوج پر فخر کرنا چاہیے، ان کا اصرار تھا کہ یہ ہمارا ورثہ ہے اور اسی بناء پر ہم اپنے ملک اور اپنے ماضی کی بازیابی چاہتے ہیں۔
دوسری عالم گیر جنگ کے بعد سے جرمنی میں مضبوط جمہوریت کے ذریعے بڑے منظم طریقے سے نازی طرز فکر کا قلع قمع کرنے اور نازی ماضی سے قطع تعلق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن پچھلے سال انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جب چانسلر مرکل نے دس لاکھ پناہ گزینوں کو جرمنی کی سرزمین پر پناہ دی تو ان کے خلاف ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور نازی قوم پرست جماعتو ں نے چانسلر مرکل اور لٹے پٹے پناہ گزینوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اور ایسی جذباتی فضاء طاری کردی کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد نازیوں کی ہم نوا ہوگئی۔ اور نتیجہ یہ کہ سن ساٹھ کے بعد پہلی بار نازیوں کو وفاقی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کہ جگہ مل گئی۔
خود جرمنی میں سنجیدہ افراد کو عام انتخابات میں AfDکامیابی پر گہری تشویش ہے۔ اس تشویش کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کامیابی کے پیچھے اسلام دشمنی نمایاں ہے۔ اسلام دشمنی کا بڑھتا ہوا رحجان اس وجہ سے پریشان کن ہے کہ ترک اس وقت جرمنی میں سب سے بڑی مسلم اقلیت ہیں۔ ویسے تو ترکوں کے جرمنی سے روابط سلطنت عثمانیہ کے دور سے ہیں لیکن دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جب جرمنی کو تعمیر نو کے لیے بڑے پیمانے پر افرادی قوت کی ضرورت ہوئی تو ترکوں نے جرمنی کی مدد کی اور سن ساٹھ کے عشرے میں ترک بڑی تعداد میں جرمنی میں آباد ہونے شروع ہوئے اور سن ستر کے عشرے میں لبنان اور عراق سے بھی ترکوں نے جرمنی کو اپنے دوسرے وطن کے طور پر اپنایا۔ اس وقت ترک مسلمانوں کی جرمنی میں تعداد ستر لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں AfD کے بانی الیگزنڈر گاؤلینڈ کا یہ نعرہ کھوکھلا لگتا ہے کہ جرمنی کا کبھی اسلام سے تعلق نہیں رہا۔ پہلی عالم گیر جنگ میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا اور دوسری جنگ میں تباہی کے بعد جرمنی کی تعمیر نو میں ترک مسلمانوں نے ایسے ہاتھ بٹایا جیسے وہ اپنے وطن کی تعمیر نو میں جٹے ہیں۔
AfDکی انتخابی کامیابی اس بناء پر بھی تشویش کی باعث ہے کہ گزشتہ چار برس کے دوران اس جماعت کا یورپ کی سیاست پر گہرا اثر مرتب ہوا ہے اور اس کی وجہ سے یورپ میں کٹر قوم پرستی کے رجحان کو فروغ ملا ہے۔ گو فرانس میں نسل پرست جماعت نیشنل فرنٹ 1972سے سرگرم عمل ہے اور اس وقت اس کے 85ہزار سے زیادہ اراکین ہیں لیکن AfDکے معرض وجود میں آنے کے بعد یورپ کے دس ملکوں میں کٹر قوم پرستی کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، جس کے پس پشت اسلام دشمنی نمایاں ہے اور پناہ گزینوں کے داخلہ پر پابندی کا مطالبہ حاوی ہے۔ ان میں ہنگری میں ’’بہتر ہنگری کی تحریک‘‘ Jobbik تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔ اس نسل پرست تحریک کا سربراہ 38سالہ نوجوان گبور وونا ہے جس نے ہنگری کی سیاست میں تہلکہ مچا دیا ہے۔
آسٹریا میں نازی پارٹی FPO، فریڈم پارٹی آف آسٹریا پچھلے سال صدارتی انتخاب جیتے جیتے رہ گئی لیکن پارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اب یہ تیسری بڑی پارٹی ہے جس کے اراکین کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اسلام دشمنی کے ساتھ پارٹی تارکین وطن کے داخلہ کے سخت خلاف ہے۔ اس کا موقف ہے کہ آسٹریا کی اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے لازمی ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ اس پارٹی کے سربراہ ہائنس کرسٹین اسٹراشے گزشتہ جنوری میں ٹرمپ کی انتخابی جیت پر مبارک باد پیش کرنے ٹرمپ ٹاور گئے تھے۔
ڈنمارک کی پیپلز پارٹی، جرمنی کی AfDسے بے حد متاثر ہے۔ 2015 کے انتخابات میں اس پارٹی کو 21فی صد ووٹ ملے اور یہ اب دوسری بڑی جماعت ہے۔ ڈنمارک کی پیپلز پارٹی امیگریشن کے سخت خلاف ہے، اس کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کسی صورت میں کثیر النسل ملک نہیں بن سکتا اس لیے لازمی ہے کہ امیگریشن پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔
فن لینڈ میں بھی قوم پرستی کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ فن لینڈ کی قوم پرست جماعت نے جو Finn’s Party کہلاتی ہے، پچھلے عام انتخابات میں 17فی صد ووٹ حاصل کیے۔ اس کی پالیسی کا تمام تر زور امیگرنٹس کے داخلہ پر پابندی پر ہے جب کہ فن لینڈ میں غیر ملکی تارکین وطن کی آمد کا کوئی زور نہیں ہے۔
کٹر قوم پرستی میں اس وقت سوئزر لینڈ سب سے آگے ہے اور اس نازی قوم پرستی کی سر خیل پیپلز پارٹی ہے۔ جس نے اس سال اوائل میں ریفرنڈم میں امیگریشن کی سخت مخالفت کی تھی اور ایسے پوسٹر شائع کیے تھے جن میں سفید بھیڑ کو ایک کالی بھیڑ کو لات مار کر سوئزرلینڈ کی سرحد سے باہر دھکیلتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس سے پہلے ایک ریفرنڈم میں مساجد کے میناروں پر پابندی کے حق میں مہم کے دوران مساجد کے میناروں کو مزائلز دکھایا گیا تھا۔ آخر کار 58فی صد ووٹروں نے میناروں پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا اور پابندی منظور ہوگئی۔
ادھر رودباد انگلستان کے دوسرے کنارے پر گو ایک عرصہ سے کٹر نازی جماعتیں سرگرم عمل ہیں جن میں نیشنل فرنٹ، برٹش نیشنل پارٹی، نیشنل ایکشن اور انگلش ڈیفنس لیگ پیش پیش رہی ہیں لیکن جرمنی کی AfDکے گہرے تعاون کی بدولت نئی جماعت UKIPنے اسلام اور امیگریشن کے خلاف جذبات کو ہوا دی ہے۔
پچھلے دنوں لندن میں پولیس نے ممنوع نازی پارٹی نیشنل ایکشن کے خلاف کارروائی کی ہے اور اس کے گیارہ اراکین کو گرفتار کیا ہے۔ جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ میں نازی پارٹی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت یورپ کٹر قوم پرستی کے جال میں گرفتار ہے، جس کی وجہ سے مسلمان اور غیر ملکی تارکین وطن سخت نفرت اور کشیدگی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ان کا مستقبل غیر یقینی کی تاریکی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔