منزلِ تسلیم و رضا 

324

zcl_muftiMuneebتسلیم ور ضا کے معنی ہیں: ’’اپنے آپ کو اللہ کے سپر د کردینا، اپنی نفسانی خواہشات و ترجیحات کو اللہ کی رضا کے تابع کر دینا، اپنی انا کو اس کی رضا میں فنا کر دینا، اسی کو فنا فی اللہ بھی کہتے ہیں، انگریزی میں اسے Total Submission سے تعبیر کیا جاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اسی معنویت کو ان آیاتِ مبارکہ میں بیان فرمایا ہے:
(1) ’’اور لوگوں میں سے ایک شخص ایسا ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی جان کا سودا کر لیتا ہے، (بقرہ: 207)‘‘۔ (2) ’’بے شک اللہ نے اہلِ ایمان سے اُن کی جانوں اور مالوں کو جنت کے عوض خرید لیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، پھر (اللہ کے دشمنوں کو) قتل کر دیتے ہیں یا (راہِ حق میں) شہید ہو جاتے ہیں، اس پر اللہ کا تورات، انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنے وعدے کو وفا کرنے والا کون ہے، سو تم اپنی اس بیع کی خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کی ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے، (توبہ: 111)‘‘۔
سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے تسلیم و رضا کی یہ لا زوال مثال قائم کی، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’سو جب (باپ بیٹا) دونوں نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل گرا دیا، (الصّٰفّٰت: 103)‘‘۔ مراحلِ ابتلا میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عزیمت و استقامت کی شہادت اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان کلمات طیبات میں دی ہے: ’’اور جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا، تو وہ (اس امتحان میں) پورا اترے، اللہ نے فرمایا: میں تمہیں انسانیت کا امام بنانے والا ہوں، (بقرہ: 124)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ’’بے شک ابراہیم (اپنی ذات میں) اللہ کی اطاعت گزار اُمت تھے، ہر باطل سے اجتناب کرنے والے اور مشرکوں میں سے نہ تھے، اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، (اللہ نے) ان کو چن لیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دی اور ہم نے ان کو دنیا میں بھلائی عطا کی، آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہوں گے، (النحل: 120-122)‘‘۔
پس تسلیم ورضا کا یہ شِعار سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے توسط سے رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ تک پہنچا۔ غزوۂ حنین میں قبیلۂ ہوازن کی شدید تیر اندازی کے سبب جب وقتی طور پر مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے تو رسول اللہ ؐ تنہا میدان میں پوری استقامت کے ساتھ کھڑے رہے اور فرمایا: ’’میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے، میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں‘‘۔ رسول اللہ ؐ سے اللہ کی راہ میں عزیمت و استقامت اور جاں نثاری کی یہ وراثت آپ کے اہلِ بیتِ اطہار کو منتقل ہوئی اور میدانِ کربلا میں سیدنا حسینؓ اور آپ کے اہلِ بیتِ اطہار و اعوان و انصارؓ کے ذریعے یہ اپنی معراج کو پہنچی، علامہ اقبال نے کہا تھا:



غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسماعیل
اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرّب بندے سراپا تسلیم و رضا ہوتے ہیں، وہ اللہ کی قضا و قدر پر شاکی نہیں ہوتے بلکہ راضی رہتے ہیں۔ امیر المؤمنین سیدنا علیؓ جامع مسجد کوفہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ عبدالرحمٰن بن ملجم خارجی نے زیرِ لب کہا: ’’میں ایسی چکی چلاؤں گا کہ لوگوں کو ان سے نجات دلادوں گا‘‘۔ کچھ لوگوں نے اس کی اس بات کو سنا اور سیدنا علیؓ سے کہا: ’’اس کے ارادے خطرناک ہیں، یہ آپ کو قتل کی دھمکی دے رہا ہے‘‘۔ اس پر سیدنا علی نے کہا: ’’ابھی تو اس نے مجھے قتل نہیں کیا‘‘ اور ایک روایت کے مطابق آپ نے کہا: ’’میں اپنے قاتل کو کیسے قتل کردوں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا علیؓ کو اپنی شہادت کا علم تھا۔ رسول اللہ ؐ نے سیدنا علی سے فرمایا تھا: ’’گزشتہ امتوں میں بدبخت ترین شخص وہ تھا جس نے سیدنا صالح علیہ السلام کی ناقہ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اس اُمت کا بد بخت ترین شخص وہ ہو گا جو تمہاری پیشانی اور چہرے کو خون سے رنگین کرے گا‘‘۔ ایک بار بیماری کے عالم میں آپ سے کہا گیا: بہتر ہوتا کہ آپ مدینۂ منورہ تشریف لے جاتے: تو آپ نے فرمایا: اس بیماری میں میرا انتقال نہیں ہو گا، کیونکہ رسول اللہ ؐ نے مجھ سے عہد فرمایا تھا کہ موت سے پہلے مجھے امیر مقرر کیا جائے گا، پھر (جب میری شہادت کا وقت آئے گا تو) قاتل میری پیشانی سے جبڑے تک مجھے خون سے رنگین کرے گا۔



یہ تمام حقائق اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا علیؓ کو اپنی شہادت کا علم تھا اور شاید قاتل کا بھی علم تھا، لیکن انہوں نے اپنے قاتل کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ وہ شہادت کے لیے ہر وقت آمادہ رہے۔ یہی صورتِ حال سیدنا حسینؓ کی بھی تھی کہ جب شہادت کی منزل انہیں آفتاب نصف النہار کی طرح اپنی نگاہوں کے سامنے نظر آرہی تھی، تب بھی آپ کے پائے ثبات میں کو ئی لغزش نہ آئی اور اس منزل کو پانے کے لیے آپ تیار رہے۔ شبِ عاشورکو انتہائی فصیح وبلیغ انداز میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: ’’جو آج کی شب اپنے خاندان والوں کے پاس جانا چاہتا ہے تو میں اسے اجازت دیتا ہوں، کیونکہ قوم صرف میرے خون کی پیاسی ہے، تم پر رات کی ظلمت چھاچکی ہے، تم میں سے ہر ایک میرے گھر کے ایک فرد کا ہاتھ پکڑ لے اور رات کی تاریکی میں اپنے خاندانوں کی طرف نکل جائے، اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے، قوم کو میرا خون چاہیے، جب وہ مجھے شہید کردیں گے تو ان کی عداوت کی پیاس بجھ جائے گی اور کسی اور کی خواہش انہیں نہیں رہے گی‘‘۔ آپ کے اہلبیت کے مردوں نے کہا: ’’آپ کے بعد جینے میں کوئی مزا نہیں ہے، لوگ کہیں گے: ہم نے اپنے بزرگوار، اپنے سردار، اپنے چچا زاد اور بہترین چچا کو تنہا چھوڑ دیا، ہم نے ان کی مدافعت میں ایک تیر اور ایک نیزہ بھی نہ چلایا، دنیاوی زندگی کی خاطر ہم نے تلوار تک نہ چلائی۔ واللہ! ہم آپ پر اپنی جانوں، اپنے مالوں اور اپنے اہل وعیال کو قربان کردیں گے اور آخری سانس تک آپ کی مدافعت میں لڑیں گے، آپ کے بعد جینا کیا جینا ہے‘‘۔
الغرض وہ سب کوہِ استقامت تھے، موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود آپ کا ساتھ نہ چھوڑا، یہی منزلِ تسلیم و رضا ہوتی ہے کہ انسان دنیوی نفع ونقصان سے ماورا ہوکر حیاتِ ابدی اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنالیتا ہے، تو اُن کے لیے جان کی قربانی بھی آسان ہوتی ہے، علامہ اقبال نے خوب کہا ہے:
برتراز اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی
صبحِ عاشور آپ نے اتمامِ حجت کرتے ہوئے حمد وصلوٰۃ کے بعد فرمایا: کیا مجھ جیسی شخصیت کو قتل کرنا تمہیں گوارا ہے، میں تمہارے نبی کا شہزادہ ہوں اور آج میرے سوا اللہ کی زمین پر کسی نبی کا فرزند موجود نہیں ہے، علی میرے باپ ہیں، جعفرِطیار میرے چچا ہیں، سید الشہداء حمزہ میرے والد کے چچا ہیں، میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا: ’’یہ دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں، میرا مقام جاننا ہو تو اصحابِ رسول سے پوچھو‘‘۔ لیکن ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی اور سعادت ان کے مقدر میں نہ تھی۔



شعارِ تسلیم ورضا کو سیدنا حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اُس معراج تک پہنچایا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی۔ اللہ کی راہ میں ایثار وقربانی کا کوئی ایسا عنوان باقی نہ رہا جسے آپ نے اپنی نسبت سے مُشرَّف نہ کیا ہو۔
اس سے پہلے جب آپ مدینۂ منورہ سے عزمِ سفر کرنے لگے تو جلیل القدر صحابہ سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا ابوسعید خدری وغیرہمؓ نے آپ کو اس سفر سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اہلِ کوفہ کی جفا کا بھی حوالہ دیا، لیکن آپ اپنے عزم پر قائم رہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اہلِ کوفہ نے بڑی تعداد میں خطوط بھیجے، آپ کوفہ آنے کی دعوت دی اور بطور امیرالمومنین و خلیفہ آپ کی بیعت کا وعدہ کیا۔ آپ بجا طور پر یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ ؐ سے نسبتِ قرابت، سیدنا علیؓ کا فرزند اور سیدنا سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کا لختِ جگر ہونے اور اپنے علم اور ورَع وتقویٰ کے سبب آپ خلافت کے اہل ہیں۔ چنانچہ آپ عمرہ ادا کرنے کے بعد منازلِ سفر طے کرتے ہوئے کربلا پہنچے اور محرم الحرام 61ھ کے یومِ عاشور کو جب کوفے کی مساجد سے جمعۃ المبارک کی اذان کی آوازیں بلند ہورہی تھیں، شقی القلب لوگ تقریباً اُسی وقت نواسۂ رسول کی گردن پر خنجر چلارہے تھے۔ یہ منظر کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابلِ تصور ہے لیکن امت کی بدنصیبی کہ بظاہریہ ناممکن فعل واقع ہوا اور آج تک اس پر تمام اہلِ ایمان اور محبانِ رسول ؐ ومحبانِ اہلِ بیتِ رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین غمگسار ہیں۔
لیکن ستم یہ ہے کہ محبتِ حسین کے دعوے دار تو بہت ہیں اور اپنے اپنے انداز میں ان کی یاد بھی مناتے ہیں، ان کا غم بھی تازہ کرتے ہیں اور مجالس بھی منعقدکرتے ہیں، مگر اُن کی اقدار کو زندہ کرنے والے آج بھی کم ہیں، علامہ اقبال نے سچ کہا تھا:
گرچہ تابدار ہے، اب بھی گیسوئے دجلہ وفرات
قافلۂ حجاز میں، ایک حسین بھی نہیں