ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔ ۔ از حبیب الرحمن

565

پہلے تو کبھی سال چھ ماہ میں کسی ذمے دار شخصیت کی زبان ’’پھسل‘‘ جایا کرتی تھی لیکن اب عالم یہ ہے کہ ایک تواتر کے ساتھ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں اور کہنے والوں کو نہ کوئی شرمندگی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پچھتاوا۔
لوگوں کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے یہ شکایت تھی کہ وہ ساری اہم وزارتیں اپنی مٹھی میں بند کرکے بیٹھے ہیں جن میں امور خارجہ کی وزارت بھی شامل تھی۔ نااہلی کے بعد نئے وزیراعظم نے یہ ساری وزاتیں مختلف افراد میں تقسیم کر دیں، خارجہ امور کی وزارت ایک ایسے فرد کے ہاتھ میں تھمادی جس کا کردار پاک فوج کے لیے کبھی اچھا نہیں رہا۔ خواجہ آصف کی زبان پہلے بھی فوج کے خلاف زہر اگلتی رہتی تھی اور اب جب کہ وہ وزارت خارجہ کا قلم دان سنبھال چکے ہیں تو وہ اس سنہری (اُن کے اپنے حساب سے) موقعے کو کس طرح ہاتھ سے گنوا سکتے تھے۔
آرمی چیف کی کوشش ہے کہ وہ بیرونی دنیا کو کسی طرح قائل کر سکیں کہ پاکستان کے اندرونی حالات اب پہلے جیسے نہیں اور پاکستان سے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ جس کا سب سے بڑا اور واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں اب ایسے علاقوں میں بھی کھیل کود اور کرکٹ ٹونامنٹ ہو رہے ہیں جہاں ایسا سوچا جانا بھی ممکن نہیں تھا۔ دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ کا اگر بیان ایسا آئے جو اس بات کی عکاسی کر رہا ہو کہ پاکستان میں نہ صرف دہشت گرد اور شدت پسند موجود ہیں بلکہ کچھ ’’نادیدہ‘‘ قوتیں ان کی سر پرستی کر رہی ہیں تو یہ ایسا ہی جیسے پاکستان کی ہر کوشش پر پانی پھیر دیا جائے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نیویارک میں ایشیا سوسائٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ ’’حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید جیسے عناصر پاکستان کے لیے ایک بوجھ ہیں اور ان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کو وقت چاہیے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بحران کی صورت میں پاکستان اور خطے کے لیے بوجھ ثابت ہو سکتے ہیں‘‘۔ حافظ سعید کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’’ان کی تنظیم کالعدم ہے اور وہ نظربند ہیں مگر میں آپ سے متفق ہوں کہ اس سلسلے میں ہمیں مزید اقدامات کرنے ہوں گے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’یہ کہنا بہت آسان ہے کہ پاکستان حقانیوں اور حافظ سعید اور لشکر طیبہ کی مدد کر رہا ہے۔ یہ بوجھ ہیں، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ ایک لائبیلٹی ہیں لیکن ہمیں وقت دیں ان سے جان چھڑانے کے لیے کیوں کہ ہمارے پاس ان سے جان چھڑانے کے وسائل نہیں ہیں۔ آپ تو یہ بوجھ بڑھا رہے ہیں‘‘۔
بات اگر کسی مقام پر آکر ختم ہو جائے تب بھی اس کو کسی نہ کسی طرح ختم کیا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کا وزیر خارجہ اگر افغانستان یا بھارت کی زبان ہی منہ میں ڈال کر بیٹھا ہو تو بات اتنی جلد کہاں ختم ہو سکتی ہے۔ نہ رکنے والی زبان مسلسل اپنی ہی غلطیوں کا رونا روتی رہی کہتے ہیں ’’80 کی دہائی میں امریکا کا آلہ کار بننا ایک ایسی غلطی تھی جس کا خمیازہ پاکستان ابھی تک بھگت رہا ہے۔ پاکستان پر الزامات لگانے سے پہلے اس بات پر غور کیا جائے کہ پاکستان کے مسائل اور مشکلات امریکا کی سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے بعد پیدا ہوئے جب پاکستان کو امریکا نے بحیثیت آلہ کار استعمال کیا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ بننا غلط فیصلہ تھا۔ ہمیں استعمال کیا گیا اور پھر دھتکار دیا گیا۔ بلاشبہ ہم نے غلطیاں کی ہیں لیکن ہم اکیلے نہیں ہیں صرف ہمیں مورد الزام ٹھیرانا ناانصافی ہے۔ امریکا کو سوویت یونین کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد خطے کو ایسے چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے تھا۔ اس کے بعد سے ہم جہنم میں چلے گئے اور آج تک اسی جہنم میں جل رہے ہیں‘‘۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں انہوں نے چند ایسی باتیں بھی بیان کیں جو پاکستان کے عزت وقار میں اضافہ کرتی نظر آتی ہیں، جیسے انہوں نے کہا کہ ’’افغانستان کا مسئلہ صرف عسکری طور پر حل نہیں کیا جا سکتا، پاکستان صرف ایک حد تک افغان مسئلے کے حل کی ذمے داری لے سکتا ہے، باقی کام افغانستان کو خود کرنا ہوگا، گزشتہ 15 سال سے افغانستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان میں پوست کی کاشت میں مسلسل اضافہ، طالبان کا کھوئے ہوئے حصوں پر واپس قبضہ، شدت پسند تنظیم داعش کی وہاں موجودگی اور ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن جیسے مسائل کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے، پاکستان نے متعدد بار انڈیا سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں لیکن انڈیا نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا بلکہ کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد کم ہونے سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان نے دہشت گرد عناصر کے خلاف موثر کارروائی کی ہے، پاکستان کے چین کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات تھے اور پاکستان نے اپنے بہتر تعلقات کو امریکا اور چین کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا‘‘۔
خواجہ آصف کی باتوں کے ان پہلوؤں پر اگر غور کیا جائے جن میں پاکستان کے بارے میں مثبت باتیں سامنے رکھی گئی ہیں تو اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سارے باتیں مسلم لیگ ن کی کارکردگی کوظاہر کرتی ہیں اور ان کا صحیح معنوں میں پاکستان کی حقیقی صورت حال کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ امن و امان کے قیام کو بھی حکومت کی جھولی میں ڈالتے نظر آرہی ہے اور اس میں افواج پاکستان کے کردار کو ذکر کے قابل بھی نہیں سمجھ رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جانب ہر اچھائی کا کریڈٹ تو وہ حکومت کے سر لینا چاہتے ہیں لیکن جب بات آتی ہے کالعدم تنظیموں، حافظ سعید اور تخریب کاروں کی تو وہاں وہ یہ تاثر دیتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ درمیان میں کوئی ہچ ہے اور یہ ہچ ’’نادیدہ‘‘ قوتیں ہیں جن سے چھٹکارہ پانے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ ایک ہی ملک میں دو دو حکومتوں کے تاثر کو فروغ دینے کے بجائے اس کو جلد از جلد ختم کرنا ہوگا، ہمیں بہر صورت ایک پیچ پر آنا ہوگا اور ایک پیج پر آنے سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک بات کر طے کرنا ہو گی کہ وہ ’’پیچ‘‘ کس کا ہونا چاہیے۔ لہٰذا عسکری اور سول حکام کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہی ہوگا۔
از حبیب الرحمن