لباس کے آداب ۔ ۔ از مولانا یوسف اصلاحی

1360

-1 لباس ایسا پہنیے جو شرم و حیا، غیرت و شرافت اور جسم کی ستر پوشی اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے اور جس سے تہذیب و سلیقہ اورزینت و جمال کا اظہار ہو ۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس نعمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے ۔

یٰبَنِیْ ادم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سواتکم وریشاط
(الاعراف)

’’ اے اولاد آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت اور حفاظت کا ذریعہ بھی ہو‘‘۔
ریش دراصل پرندے کے پروں کو کہتے ہیں۔ پرندے کے پر اس کے لیے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہیں اور جسم کی حفاظت کا بھی۔ عام استعمال میں ریش کا لفظ جمال و زینت اور عمدہ لباس کے لیے بولا جاتا ہے۔
لباس کا مقصد زینت و آرائش اور موسمی اثرات سے حفاظ بھی ہے لیکن اولین مقصد قابل شرم حصوں کی ستر پوشی ہے۔ خدا نے شرم و حیا انسان کی فطرت میں پیدا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام سے جنت کا لباس فاخرہ اتروا لیا گیا تو وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے۔ اس لیے لباس میں اس مقصد کو سب سے مقدم سمجھیے اور ایسا لباس منتخب کیجیے جس سے ستر پوشی کا مقصد بخوبی پورا ہوسکے۔ ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام رہے کہ لباس موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کرنے والا بھی ہو، اور ایسا سلیقے کا لباس ہو جو زینت و جمال اور تہذیب کا بھی ذریعہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اسے پہن کرآپ کوئی عجوبہ یا کھلونا بن جائیں اور لوگوں کے لیے ہنسی اور دل لگی کا موضوع مہیا ہو جائے۔
-2 لباس پہنتے وقت یہ سوچیے کہ یہ وہ نعمت ہے جس سے خدا نے صرف انسان کونوازا ہے۔ دوسری مخلوقات اس سے محروم ہیں اس امتیازی بخشش و انعام پر خدا کر شکر ادا کیجیے اور اس امتیاز ی انعام سے سرفراز ہو کر کبھی خدا کی ناشکری اور نا فرمانی کا عمل نہ کیجیے لباس خدا کی ایک زبردست نشانی ہے۔ لباس پہنیں تو اس احساس کو تازہ کیجیے اور جذباتِ شکر کا اظہار اس دعا کے الفاظ میں کیجیے جو نبی ؐ نے مومنوں کو سکھائی ہے۔
-3 بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ تقویٰ کے لباس سے باطنی پاکیزگی بھی مراد ہے اور ظاہری پرہیز گاری کا لباس بھی۔ یعنی ایسا لباس پہنیے جو شریعت کی نظر میں پرہیزگاروں کا لباس ہو، جس سے کبر و غرور کا اظہار نہ ہو، جو نہ عورتوں کے لیے مردوں سے مشابہت کا ذریعہ ہو اور نہ مردوں کے لیے عورتوں سے مشابہت کا۔ ایسا لباس پہنیے جس کو دیکھ کر محسوس ہوسکے کہ لباس پہننے والا کوئی خدا ترس اور بھلا انسان ہے اور عورتیں لباس میں ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کی ہیں اور مرد ان حدود کا لحاظ کریں جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔
4۔نیا لباس پہنیں تو کپڑے کا نام لیے کر خوشی کا اظہار کیجیے کہ خدا نے اپنے فضل و کرم سے یہ کپڑا عنایت فرمایا اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو کر نیا لباس پہننے کی وہ دعا پڑھیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا ، عمامہ، کرتا یا چادر پہنتے تو اس کا نام لے کر فرماتے۔۔
اللہم لک الحمد انت کسد تنیہ، اسلک خیرہ وخیرما صنع لہ و اعوذ بک من شرہ وشرما صنع لہ۔ (ابو دائود)
’’خدایا تیرا شکر ہے تو نے مجھے یہ لباس پہنایا۔ میں تجھ سے اس کے خیر کا خواہاں ہوں اور میں اپنے آپ کو تیری پناہ میں دیتا ہوں، اس لباس کی برائی سے اور اس کے مقصد کے اس برے پہلو سے جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے۔‘‘
دعاکا مطلب یہ ہے کہ خدایا تو مجھے توفیق دے کہ میں تیرا بخشا ہوا لباس انہی مقاصد کے لیے استعمال کروں جو تیرے نزدیک پاکیزہ مقاصد ہیں۔ مجھے توفیق دے کہ میں اس سے اپنی ستر پوشی کر سکوں اور بے شرمی، بے حیائی کی باتوں سے اپنے ظاہر و باطن کو محفوظ رکھ سکوں اور شریعت کے حدو د میں رہتے ہوئے میں اس کے ذریعے اپنے جسم کی حفاظت کر سکوں، اور اس کو زینت و جمال کا ذریعہ بنا سکوں۔ کپڑے پہن کر نہ تو دوسروں پر اپنی بڑائی جتائوں ، نہ غرور اور تکبر کروں اور نہ تیری اس نعمت کو استعمال کرنے میں شریعت کی ان حدود کو توڑوں جو تو نے اپنے بندوں اور بندیوں کے لیے مقرر فرمائی ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
’’جو شخص نئے کپڑے پہنے اگر وہ گنجائش رکھتا ہو تو اپنے پرانے کپڑے کسی غریب کو خیرات میں دے دے اور نئے کپڑے پہنتے وقت یہ دعا پڑھے۔‘‘
الحمد للہ الذی کسانی ما اواری بہ عورتی واتجمل بہ فی حیاتی۔
’’ساری تعریف و حمد اس خدا کے لیے ہے جس نے مجھے یہ کپڑے پہنائے، جس سے میں اپنی ستر پوشی کرتا ہوں، اور جو اس زندگی میں میرے حسن و جمال کا بھی ذریعہ ہے۔‘‘
جو شخص بھی نیا لباس پہنتے وقت یہ دعا پڑھے گا اللہ تعالی اس کو زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اس کو اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھے گا۔ (ترمذی)
5۔کپڑے پہنتے وقت سیدھی جانب کا خیال رکھیں، قمیض کرتہ شیروانی اور کوٹ وغیرہ پہنیں تو پہلے سیدھی آستین پہنیے اور اسی طرح پائجامہ وغیرہ پہنیں تو پہلے سیدھے پیر میں پائینچہ ڈالیے۔ نبیؐ جب قمیض پہنتے تو پہلے سیدھا ہاتھ سیدھی آستین میں ڈالتے۔ اور پھر الٹا ہاتھ الٹی آستین میں ڈالتے۔ اسی طرح جب آپؐ جوتا پہنتے تو پہلے سیدھا پائوں سیدھے جوتے میں ڈالتے پھر الٹا پائوں الٹے جوتے میں ڈالتے اور جوتا اتارتے وقت پہلے الٹا پائوں جوتے سے نکالتے پھر سیدھا پائوں نکالتے۔
6۔کپڑے پہننے سے پہلے ضرور جھاڑ لیجئے،ہو سکتا ہے اس میں کوئی موذی جانور ہو اور خدانخواستہ کوئی ایذا پہنچائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار جنگل میں اپنے موزے پہن رہے تھے، پہلا موزہ پہننے کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا موزہ پہننے کاارادہ فرمایا تو ایک کوا جھپٹا اور وہ موذا اٹھاکر اڑ گیا، اور کافی اوپر لے جا کر اسے چھوڑ دیا موزہ جب اونچائی سے نیچے گرا تو گرنے کی چوٹ سے اس میں سے ایک سانپ دور جا پڑا، یہ دیکھ کر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شکر ادا کیا اور ارشاد فرمایا ’’ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ جب موزہ پہننے کا ارادہ کرے تو اس کو جھاڑ لیا کرے۔‘‘ (طبرانی)
7۔لباس سفید پہنئے، سفید لباس مردوں کے لیے زیادہ پسندیدہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’سفید کپڑے پہنا کرو، یہ بہترین لباس ہے، سفید کپڑا ہی زندگی میں پہننا چاھئیے، اور سفید ہی کپڑے میں مردوں کو دفن کرنا چاہیے۔‘‘ (ترمذی)
ایک اور موقع پر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’سفید کپڑے پہنا کرو۔ اس س لیے کہ سفید کپڑا زیادہ صاف ستھرا رہتا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفنایا کرو۔‘‘
زیادہ صاف ستھرا رہنے سے مراد یہ ہے کہ اگر اس پر ذرا سا داغ دھبہ بھی لگے تو فورا محسوس ہوجائے گا، اور آدمی فوراً دھو کر صاف کرلے گا اور اگر کوئی رنگین کپڑا ہوگا تو اس پر داغ دھبہ جلد نظر نہ آسکے گا اور جلد دھونے کی طرف توجہ نہ ہوسکے گی،
صیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفید لباس پہنا کرتے تھے، یعنی آپؐ نے خود بھی سفید لباس پسند کیا اور امت کے مردوں کو بھی اسی کے پہننے کی ترغیب دی۔